کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 71
دَعَاہُ اِلَی الْأَمْرِ ’’یعنی داعی کا اس ذِمہ داری کو اپنے اوپر لازمی قرار دینا۔ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((بَلِّغُوا عَنِّی وَلَو آیَۃً)) [1]
’’مجھ سے (جو بھی سنو) آگے پہنچا دو، خواہ وہ ایک آیت ہی ہو۔‘‘
لہٰذا داعی میں دعوت و تبلیغ کی اس ذِمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کہ یہ ایک لازمی اور ضروری اَمر ہے اور اگر مجھے ایک آیت کا بھی علم ہے تو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کی بھی لوگوں کو تبلیغ کروں اور اس کا علم لوگوں تک پہنچاؤں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی منہج لیا تھا، جیسا کہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ دورانِ حج اس وقت لوگوں کو تبلیغ کر رہے تھے جب لوگ کنکریاں مار رہے تھے، تو کسی بندے نے کہا: بھلا یہ کوئی وقت ہے دین کی دعوت کا؟ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَوْ وَضَعْتُمُ الصَّمْصَامَۃَ عَلٰی ہٰذِہٖ ۔ وَأَشَارَ إِلٰی قَفَاہُ ۔ ثُمَّ ظَنَنْتُ أَنِّی أُنْفِذُ کَلِمَۃً سَمِعْتُہَا مِنَ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم قَبْلَ أَنْ تُجِیزُوا عَلَیَّ لَأَنْفَذْتُہَا۔[2]
’’اگر تم اس پر تلوار رکھ دو (آپ نے اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا) پھر مجھے گمان ہو کہ میں گردن الگ ہونے سے پہلے پہلے اپنی زبان سے کوئی ایسا کلمہ بیان کر سکوں گا جسے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، تو میں ضرور اس کلمے کو ادا کروں گا۔‘‘
جب تک اس انداز سے تڑپ پیدا نہیں ہوتی تب تک داعی اپنے مشن میں کامیابیوں اور ثمرات کو حاصل کرنے میں صحیح طور پر کامیاب نہیں ہو پاتا اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اس طرح کی تڑپ نہ ہو تو بہت ساری خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں اور بہت سے خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوتے۔
[1] صحیح البخاری: ۳۴۶۱.
[2] صحیح البخاری، قبل حدیث رقم: ۶۸.