کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 621
حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَئِنْ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَۃَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَۃَ، أَعْتِقِ النَّسَمَ، وَفُکَّ الرَّقَبَۃَ)) ’’اگر گفتگو مختصر کرواور مسئلہ بیان کروتو اچھا ہو ، غلام آزاد کر اور گردن چھڑا۔‘‘ اس نے کہا: کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((فَإِنَّ عِتْقَ النَّسَمَۃِ أَنْ تُفْرِدَ بِعِتْقِہَا، وَفَکُّ الرَّقَبَۃِ أَنْ تُعِینَ فِی ثَمَنِہَا، وَالْمِنْحَۃُ الْمَوْکُوفَۃُ، وَالْفَیْئُ عَلٰی ذِی الرَّحِمِ الظَّالِمِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَالِکَ، فَأَطْعِمِ الْجَائِعَ، وَاسْقِ الظَّمْآنَ، وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَالِکَ، فَکُفَّ لِسَانَکَ إِلَّا مِنْ خَیْرٍ)) [1] ’’غلام آزاد کرنا یہ ہے کہ تو اکیلا اسے آزاد کرے ، گردن چھڑانا یہ ہے کہ تو اس کی قیمت کی ادائیگی میں مدد کر دے۔ سواری کے لیے جانور تحفہ دینا، ظالم رشتہ دار کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اگر تم اس کی استطاعت نہ رکھو تو بھوکے کو کھانا کھلاؤ ، پیاسے کو پانی پلاؤ ، نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو۔اگر اس کی بھی طاقت نہ پاؤ تو اپنی زبان کو خیر کے سوا ہر چیز سے روک لو۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّہٗ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِی آدَمَ عَلٰی سِتِّینَ وَثَلَاثِمِائَۃِ مَفْصِلٍ، فَمَنْ کَبَّرَ اللّٰہَ وَحَمِدَ اللّٰہَ وَہَلَّلَ اللّٰہَ وَسَبَّحَ اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ اللّٰہَ، وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِیقِ النَّاسِ، أَوْ شَوْکَۃً أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِیقِ النَّاسِ، وَأَمَرَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَہٰی عَنْ مُنْکَرٍ،
[1] مسند أحمد: ۱۸۶۴۷۔صحیح ابن حبان: ۳۷۴۔المستدرک للحاکم: ۲۸۶۱.