کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 62
شرعی احکام سمجھانے کے لیے اسلام کی تعلیم دینا شروع کی، نیز لوگوں میں للہیت اور خشوع پیدا کرنے کے لیے انہیں احسان کے مفہوم و مراتب سے روشناس کیا اور ان کو اخلاقِ عالیہ سے متصف کرنے کے لیے اپنی کوششیں جاری کیں اور اس کے لیے مختلف علاقوں میں جا کر تربیت کے حلقے بھی قائم کیے۔ یہ وہی چار اصول ہیں جن کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے دِلوائی۔ ان ہی چار اصولوں کو سمجھانے کے لیے پانچواں اصول تبلیغ و نفیر، جو کہ جبرائیل علیہ السلام کی آمد و رفت سے نکلتا ہے، بنایا گیا۔ اس لیے حدیثِ جبریل کو انہوں نے اپنے اصولوں کا مصدر قرار دیا، جس کی روشنی میں اس کتاب کو ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اس کی تفصیل سمجھنے کے لیے پہلے حدیثِ مبارکہ کا مطالعہ فرمائیے: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دِن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے تو اچانک ایک آدمی ہمارے پاس نمودار ہوا، جس نے نہایت سفید کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے بال بھی نہایت سیاہ تھے، اس پر سفر کے آثار بھی دِکھائی نہیں دے رہے تھے (یعنی وہ مسافر بھی نہیں لگ رہا تھا) لیکن ہم میں سے کوئی اس کو جانتا بھی نہیں تھا۔ وہ آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں کے ساتھ ملا لیے اور اپنے ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر رکھ دِیے اور کہا: اے محمد! مجھے اسلام کے متعلق بتلائیے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْإِسْلَامُ أَنْ تَشْہَدَ أَنْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰہِ، وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ، وَتُؤْتِیَ الزَّکَاۃَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَیْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَیْہِ سَبِیلًا)) ’’اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں اور بلاشبہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ کی ادائیگی کرو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور اگر تمہارے پاس سفر کی استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔‘‘