کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 59
ہندوستان تشریف لائے۔ ان 25صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد 41تابعین عظام رحمہم اللہ کا ورُودِمسعود اس ہندوستان میں ہوا، جن کے آخری تابعی ابوسلمہ الزطی تھے۔ پھر بیالیسویں تابعی محمد بن قاسم رحمہ اللہ نے ہند اور سندھ میں فاتحانہ قدم رکھا اور ایک وسیع مسجد تعمیر کروائی جو 4000 بچوں کی تعلیم و تربیت کا مرکز بنا۔ پھر18تبع تابعین نے ہندوستان کی سرزمین کو اپنے وجود سے شرف بخشا۔ اس کے بعد دِین کا تسلسل ہندوستان میں سیل رواں کی طرح جاری ہو گیا۔ رفتہ رفتہ وقت گزرتا گیا اور اس مبارک سلسلے کو اللہ تعالیٰ اپنے دِین کی تبلیغ و ترویج کے لیے اپنے بندوں میں سے ایک کے بعد ایک داعی اور مبلغ کھڑا کرتا رہا جو اس مشن کی تکمیل کے لیے وقف رہا۔ آخر اس تسلسل کی مالا کا ایک موتی مولانا فیض اللہ خان بھوجیانی رحمہ اللہ کی شکل میں پیدا ہوا، جو علم و معرفت اور زہد و تقویٰ میں ایک مثال تھے۔ انہوں نے سلطان المحدثین فی الہند الشیخ سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے امرتسر میں حدیث کی اجازۃ حاصل کی اور بھوجیاں کے اندر مدرسہ فیض الاسلام کی بنیاد رکھی اور مسندتدریس پر بیٹھ کر اس کا حق ادا کر دیا۔ آخر 1925 (عیسوی) میں علم و معرفت اور روحانیت کا یہ چراغ بجھ گیا۔ آپ نے تین بیٹے، عبدالرحمان، عبداللہ اور عبدالرحیم چھوڑے، جو کہ باپ کی طرح علم و فضل اور دِین و تقویٰ کی دولت سے مالامال تھے اور بہت سے متلاشیانِ علم نے ان سے کسبِ فیض کیا، جن میں مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ قابلِ ذکر ہیں، جو کہ ’الاعتصام‘ کے بانی اور مدیراوّل تھے۔ مولانا فیض اللہ خان بھوجیانی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد بڑے بیٹے مولانا عبدالرحمان بھوجیانی نے صحیح جانشینی کا حق ادا کیا، جن کی شخصیت زہد و تقویٰ میں مثالی تھی۔ ان ہی ایام میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے اسلامی سلطنت کے قیام اور مسلمانوں کے لیے الگ وطن بنانے کے لیے پیش کیے جانے والے دوقومی نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کی تگ و دو جاری تھی۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے بننے والے ملک میں کون سا نظام رائج کریں گے؟ تو انہوں نے اپنی جیب سے قرآن نکال کر پیش