کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 546
کے لیے بلایا جائے (یعنی جس بھی مسجد سے اذان سنے؛ باجماعت نماز کے لیے حاضر ہو جائے)، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے مقرر فرما دِیے ہیں اور یہ (باجماعت نمازیں) بھی انہی طریقوں میں سے ہیں، کیونکہ اگر تم اپنے گھروں میں نمازیں پڑھو گے، جیسے یہ جماعت سے پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دو گے اور اگر تم اپنے نبی کی راہ چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ جو بھی آدمی اچھی طرح وضو کرتا ہے، پھر ان مساجد میں سے کسی مسجد کا رُخ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلے میں جو وہ اٹھاتا ہے؛ ایک نیکی لکھ دیتا ہے، اس کے سبب اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے اور اس کا ایک گناہ کم کر دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہم میں سے کوئی بھی جماعت سے پیچھے نہ رہتا تھا، سوائے ایسے منافق کے جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا تھا (بلکہ بسااوقات ایسا ہوتا کہ) ایک آدمی کو دوآدمیوں کے درمیان سہارا دے کر لایا جاتا اور اسے صف میں لا کر کھڑا کر دیا جاتا۔ (7)… سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ لِلْمُنَافِقِینَ عَلَامَاتٍ یُعْرَفُونَ بِہَا: تَحِیَّتُہُمْ لَعْنَۃٌ، وَطَعَامُہُمْ نُہْبَۃٌ، وَغَنِیمَتُہُمْ غُلُولٌ، وَلَا یَقْرَبُونَ الْمَسَاجِدَ إِلَّا ہَجْرًا، وَلَا یَأْتُونَ الصَّلَاۃَ إِلَّا دَبْرًا، مُسْتَکْبِرِینَ، لَا یَأْلَفُونَ وَلَا یُؤْلَفُونَ، خُشُبٌ بِاللَّیْلِ صُخُبٌ بِالنَّہَارِ)) [1] ’’بے شک منافقوں کی کچھ علامات ہیں جن کے ذریعے ان کو پہچانا جاتا ہے: ان کا سلام لعنت ہوتا ہے، ان کا کھانا غصب شدہ مال ہوتا ہے، ان کی غنیمت خیانت اور چوری کی ہوئی ہوتی ہے، وہ مسجدوں کے قریب نہیں آتے مگر ان کو چھوڑنے کے لیے، وہ نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز کے لیے آتے ہیں، وہ
[1] مسند أحمد: ۷۹۲۶.