کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 52
کو اپنے گلے سے اُتار پھینکا۔‘‘
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً)) [1]
’’جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدگی اختیار کرتا ہے، پھر (اسی حالت میں) مر جاتا ہے تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘
اور اسی بارے میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَۃِ، وَفَارَقَ الْجَمَاعَۃَ فَمَاتَ، مَاتَ مِیتَۃً جَاہِلِیَّۃً، وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَایَۃٍ عِمِّیَّۃٍ، یَغْضَبُ لِعَصَبَۃٍ، أَوْ یَدْعُو إِلٰی عَصَبَۃٍ، أَوْ یَنْصُرُ عَصَبَۃً، فَقُتِلَ، فَقِتْلَۃٌ جَاہِلِیَّۃٌ)) [2]
’’جو شخص (مسلمانوں کے امیر کی) اطاعت سے نکلا اور جماعت سے الگ ہو گیا، پھر (اسی حالت میں) مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے تلے لڑا، اپنی عصبیت (قوم، قبیلے) کی خاطر غصے میں آیا، یا اس نے کسی عصبیت کی طرف دعوت دی، یا عصبیت کی مدد کرتے ہوئے مارا گیا تو وہ جاہلیت کی موت ہو گی۔‘‘
گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں واضح طور پر یہ بتلا دیا کہ ہدایت و نجات کا ضامن جو منہج ہے وہ کوئی ایک نام نہیں ہے بلکہ ایک کام ہے، اور پھر کام بھی وہ ہے جو میرے اور میرے صحابہ کا ہے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صاف، واضح اور روشن منہج کی خبر دے دی ہے کہ جو بھی ((مَاأَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی)) کا مصداق بنے گا، وہی صحیح منہج پر ہو گا اور وہی جہنم سے نجات پا کر جنت کا حق دار قرار پائے گا۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث:
((مَنْ یُرِدِ اللّٰہُ بِہٖ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللّٰہُ
[1] صحیح البخاری: ۷۰۵۴.
[2] صحیح مسلم: ۱۸۴۸.