کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 511
لَا تَضِیْعُ وَدَائِعُہٗ))[1] ’’جو شخص سفر کرنا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ جن کو پیچھے چھوڑ کر جائے انہیں کہے: میں تمہیں ایسی ذات کے سپرد کرتا ہوں جس کے سپرد کی ہوئی چیزیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں۔‘‘ ٭…سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی آدمی کو الوداع کرتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور تب تک نہیں چھوڑتے تھے جب تک وہ خود آپ کا ہاتھ نہ چھوڑ دیتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے: أَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَأَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلَکَ۔[2] ’’میں تیرے دین ، تیری امانت ، اور اعمال کے خاتمے کو اللہ کے سپرد کرتاہوں۔‘‘ ٭…سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا: اے اللہ کے رسول! میں سفر پہ جانا چاہتا ہوں، آپ مجھے زادِراہ عنایت کیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوٰی وَغَفَرَ ذَنْبَکَ وَیَسَّرَ لَکَ الْخَیْرَ حَیْثُمَا کُنْتَ)) [3] ’’اللہ تعالیٰ تجھے تقویٰ کا زادِراہ دے، تیرے گناہوں کی مغفرت فرمائے اور تو جہاں بھی رہے تیرے لیے بھلائی (کا حصول) آسان فرما دے۔‘‘ ٭…سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں سفر پہ جانا چاہتا ہوں، لہٰذا آپ مجھے وصیت فرما دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُوْصِیْکَ بِتَقْوَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَالتَّکْبِیْرِ عَلٰی کُلِّ شَرَفٍ))
[1] الکلم الطیب: ۱۶۸۔ صحیح الجامع: ۹۵۸۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱۶. [2] صحیح الجامع: ۴۷۹۵۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱۴. [3] سنن الترمذی:۳۴۴۴۔ صحیح الجامع: ۳۵۷۹.