کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 48
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا ان (صحابہ) میں سے کسی ایک کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گھڑی ٹھہرنا، دُنیا اور جو کچھ اس میں موجود ہے، سے بہتر ہے۔‘‘
اور اسی عظمت کی وضاحت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ:
إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ فَاخْتَارَ مُحَمَّدًا فَبَعَثَہٗ بِرِسَالَاتِہٖ، ثُمَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ النَّاسِ بَعْدَہٗ فَاخْتَارَ لَہٗ أَصْحَابَہٗ فَجَعَلَہُمْ أَنْصَارَ دِینِہٖ وَوُزَرَائَ نَبِیِّہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم ۔[1]
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے بندوں کے دِلوں میں دیکھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب فرمایا، پھر انہیں اپنے پیغامات دے کر (دنیا میں) بھیجا، پھر ان کے بعد لوگوں کے دِلوں میں دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے آپ کے ساتھیوں کا انتخاب فرمایا، پھر انہیں اپنے دِین کے مددگار اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وُزرا ء بنادیا۔‘‘
اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
مَنْ کَانَ مُسْتَنًّا فَلْیَسْتَنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ، أُولٰئِکَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانُوا خَیْرَ ہٰذِہِ الْأُمَّۃِ، أَبَرَّہَا قُلُوبًا، وَأَعْمَقَہَا عِلْمًا، وَأَقَلَّہَا تَکَلُّفًا، قَوْمٌ اخْتَارَہُمُ اللّٰہُ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ صلي اللّٰه عليه وسلم وَنَقْلِ دِینِہٖ، فَتَشَبَّہُوا بِأَخْلَاقِہِمْ وَطَرَائِقِہِمْ فَہُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم ، کَانُوا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیمِ وَاللّٰہِ رَبِّ الْکَعْبَۃِ۔[2]
’’جو شخص زندگی گزارنے کا طریقہ اختیار کرنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ان کا طریقہ اختیار کرے جو وفات پا گئے ہیں، اور وہ اصحابِ محمد رضی اللہ عنہم ہیں، جو اس اُمت کے بہترین لوگ تھے، سب سے نیک دِل تھے، علم میں سب سے گہرے تھے اور تکلّفات میں سب سے کم تھے۔ وہ ایسے (سعادت مند) لوگ تھے کہ
[1] مسند أبی داود الطیالسی: ۲۴۳.
[2] حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم: ۱-۳۰۵.