کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 474
یعنی انہوں نے اپنے فرائض اور ذِمہ داریوں سے کوتاہی برتی اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی پاسداری نہ کی، جس کی وجہ سے ان کو سزا یہ ملی کہ اللہ نے ان کے دِل سخت کر دِیے۔ گویا دِلوں کی سختی عذابِ الٰہی ہے۔ لہٰذا اس سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی ذِمہ داریوں کی کامل طور پر ادائیگی ضروری ہے۔ زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرنا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ، کُنْ وَرِعاً تَکُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ، وَکُنْ قَنِعاً تَکُنْ أَشْکَرَ النَّاسِ، وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِکَ تَکُنْ مُؤْمِناً، وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَکَ تَکُنْ مُسْلِماً، وَأَقِلَّ الضَّحِکَ، فَإِنَّ کَثْرَۃَ الضَّحِکِ تُمِیتُ الْقَلْبَ)) [1] ’’اے ابوہریرہ! پرہیزگاربن جا؛ تمام لوگوں سے زیادہ عبادت گزاربن جائے گا، قناعت پسندہوجا؛ تمام لوگوں سے بڑھ کرشکرگزاربن جائے گا، لوگوں کے لیے وہی کچھ پسندکرنے لگ جاجوتُواپنے لیے پسندکرتاہے؛ حقیقی مومن بن جائے گا، اپنے ہمسائے کے ساتھ اچھی ہمسائیگی کاثبوت دے؛ حقیقی مسلمان بن جائے گا اور ہنسناکم کردے؛ کیونکہ زیادہ ہنسنادِل کومُردہ کردیتاہے۔‘‘ مساکین اور یتیموں پر احسان کرنا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دِل کی سختی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنْ أَرَدتَّ تَلْیِینَ قَلْبِکَ فَأَطْعِمِ الْمَسَاکِینَ وَامْسَحْ رَأْسَ الْیَتِیْمِ)) [2]
[1] سنن الترمذی: ۲۳۰۵۔ سنن ابن ماجہ: ۴۲۱۷۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۹۳۰. [2] صحیح الجامع: ۱۴۱۰.