کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 44
﴿ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ﴾ [الشورٰی: ۱۳]
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے وہی دِین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح ( علیہ السلام ) کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے تیری طرف وحی کی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ ( علیہما السلام ) کو دیا تھا کہ اس دِین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا۔‘‘
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتلا دیا کہ اللہ کے ہاں بطورِ دِین صرف اسلام ہی مقبول ہے، اس کے علاوہ جو بھی دِین بطورِدستورِ حیات اور مذہب اختیار کیا جائے گا تو وہ قابل قبول نہ ہو گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ [آل عمران: ۸۵]
’’اور جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی اور دِین تلاش کرے گا تو اس سے وہ ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
اس دین اسلام کی آخری شکل قرآن مجید کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کتابِ مقدس کو رُشد و ہدایت کے سرچشمہ کے طور پر نازل فرمایا۔ خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک لاکھ چوالیس ہزار جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حاضر ہوئے تو آپ نے اس دین اسلام کی ہر طرح سے وضاحت کرنے اور اس کے تمام پہلوؤں کو مکمل بیان کرنے کے بعد فرمایا:
((أَلَا ہَلْ بَلَّغْتُ؟))
’’سنو! کیا میں نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا؟‘‘
تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو گواہ بناتے ہوئے فرمایا: