کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 429
کریں کیونکہ بعض حضرات بڑی بڑی کنکریاں پکڑ تے ہیں اور اس زور سے مارتے ہیں کہ وہ دوسرے شخص کی آنکھ کو ضائع کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں یا پھر جوتے مارتے ہیں کہ شیطان ہے، حالانکہ وہ شیطان نہیں۔ یہ تو اللہ کا حکم سمجھ کر مارنا ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو سکھلایا، اسی طرح سات کنکریاں اکٹھی لفافے میں بند کرکے ایک مرتبہ مارنا بھی صحیح نہیں۔ ایک ایک کرکے ماریں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک کرکے ہی ماری تھیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی۔ (۲) کسی بچے، عورت اورعمر رسیدہ کی طرف سے نائب بن کر کنکریاں مارنا صحیح ہے۔ جو شخص کسی بچے، عورت یا کسی بوڑھے شخص کی طرف سے کنکریاں مارنا چاہے تو وہ پہلے اپنی کنکریاں مارے گا، پھر اسی جگہ اس شخص کی طرف سے مارے، یہ نہیں کہ پہلے اپنی کنکریاں مارنے کے لیے جائے پھر فارغ ہو کر اس کے لیے جائے، یہ مشقت ہے جبکہ اسلام آسانی چاہتا ہے۔ (۳) جس حاجی نے قربانی کرنی ہے وہ حج ِقران والا اور تمتع والا ہے (اِفراد والے پر قربانی نہیں) لیکن حجِ تمتع والا بھی اگر قربانی کی طاقت نہیں رکھتا تو اس کو دس روزے رکھنے ہیں، تین تو ادھر حج کے ایام میں اور سات اپنے وطن میں جاکر۔ بہتر تو یہ ہے کہ تین روزے وہ یوم عرفات سے پہلے رکھے یا ایام تشریق میں۔[1] لیکن اگر پے درپے ہو تو بہتر ہے اور اگر نہ ہو تو بھی کرئی حرج نہیں، اسی طرح وہ سات روزے جو اس نے اپنے وطن جاکر رکھنے ہیں وہ بھی پے درپے نہ ہوں توبھی کوئی حرج نہیں۔ پھر قربانی کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ تسلی کرلے کہ قربانی کے جانور میں عیب نہ ہو۔ جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَرْبَعٌ لَا تُجْزِیُٔ فِی الْأَضَاحِیِّ: الْعَوْرَائُ الْبَیِّنُ عَوَرُہَا، وَالْمَرِیضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُہَا، وَالْعَرْجَائُ الْبَیِّنُ ظَلْعُہَا، وَالْکَسِیرَۃُ
[1] صحیح البخاری: ۱۹۹۸.