کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 426
جارہے تھے تو اس وقت حکم دیا کہ کنکریاں اٹھاؤ لیکن اگر راستے یا پھر مزدلفہ سے ہی اٹھا لیں تو بھی کوئی حرج نہیں۔ ان کنکریوں کو دھونا نہیں، کیونکہ یہ کام نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔ اس لیے اپنے اوپرمشقت نہ کریں اور نہ ہی اس بدعت کا ارتکاب کریں۔ دس ذوالحجہ کا دن مزدلفہ میں رات گزارنے کے بعد جب خوب سفیدی ہو جائے تو سورج طلوع ہونے سے قبل منیٰ کو جانا ہے۔ وہاں جا کر یہ چار کام کرنے ہیں: (1)… بڑے جمرے کو سات کنکریاں ایک ایک کرکے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر مارنا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ وادی کے پیٹ سے ماریں یعنی کعبے کو اپنے بائیں طرف کرکے اور منیٰ کو دائیں طرف کرکے، لیکن اگر یہ ممکن نہ ہوسکے توجدھر سے مرضی ماریں ٹھیک ہے۔[1] پہلا کام افضل ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا۔[2] (2)… قربانی کرنی ہے۔ یہ اس کے لیے ہے جو حجِ قران یا تمتع کررہا ہے۔ حجِ افراد والے پر قربانی نہیں۔ (3)… سرمنڈوانا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوانے والے کے لیے تین مرتبہ رحمت کی دعا مانگی اور بال کٹوانے والے کے لیے ایک مرتبہ۔ جیسا کہ جناب ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((رَحِمَ اللّٰہُ الْمُحَلِّقِینَ)) ’’اللہ تعالیٰ سرمنڈوانے والوں پررحم فرمائے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اوربال چھوٹے کرانے والوں پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] سنن الترمذی: ۹۰۱. [2] سنن أبی داود: ۱۹۰۲.