کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 424
نو ذوالحجہ (عرفات کا دن) نویں تاریخ کو سورج طلوع ہوجانے کے بعد ہرشخص میدان عرفات کی طرف جائے گا اور عرفات میں ٹھہرنے کا وقت زوال شمس سے لے کر دسویں تاریخ کو فجر طلوع ہونے تک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ، فَمَنْ أَدْرَکَ لَیْلَۃَ عَرَفَۃَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مِنْ لَیْلَۃِ جَمْعٍ، فَقَدْ تَمَّ حَجُّہٗ))[1] ’’حج وقوفِ عرفہ کا نام ہے، جو شخص مزدلفہ میں گزاری جانے والی رات کی صبح طلوع ہونے سے پہلے عرفات (سے ہو کر مزدلفہ) آ جائے، اس کا حج پورا ہو گیا۔‘‘ یہاں پر حاجی ظہر کے وقت ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ ظہر و عصر کی دو رکعتیں جمع کرکے (ظہر کے وقت ہی)پڑھے گا لیکن ہر نماز کے لیے تکبیر الگ ہوگی۔ پھر سورج غروب ہونے تک وہ اللہ کا ذکر، قران کی تلاوت اور گڑگڑا کر دعائیں مانگنے میں مشغول رہے (دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا ہے، نہ کہ جبل ِرحمت کی طرف) وادی ِعرنہ عرفات میں داخل نہیں، یہاں ٹھہرنا اور جبل رحمت پر چڑھنا مستحب نہیں۔ اس لیے عرفات کی حدود میں رہنا چاہیے)۔ اس دن کی دعا کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افضل دعا جو میں نے اور مجھے سے پہلے انبیاء علیہما السلام نے یوم عرفہ میں کی، وہ یہ ہے: لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَیُمِیْتُ وَھُوْ عَلٰی کُلِّ شَیٍٔ قَدِیرٌ۔[2] ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں،اسی کی بادشاہت ہے اور سب تعریف اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قدرت رکھتا ہے۔‘‘
[1] سنن أبی داود: ۱۹۴۹۔ سنن النسائی: ۳۰۱۶. [2] سنن الترمذی: ۳۵۸۵۔ مصنف عبد الرزاق: ۸۱۲۵۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۱۵۰۳.