کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 404
پائی ہو، توایسے شخص کی دعا کیسے قبول کی جاسکتی ہے؟‘‘ (4)…چوتھی بات جو استطاعت میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا وقت ہوجو حج کے اعمال کو پہنچ سکے، یہ نہ ہو کہ اپنے ملک سے چلے اور حج کے ایام گزررہے ہوں اور وہ ایام کو پا ہی نہ سکے ۔ ٭…عورت کی استطاعت کے لیے ایک زائدشرط یہ لگائی جاتی ہے کہ اس کے ساتھ محرم ضروری ہے۔ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب عورت حج ِتطوع یعنی نفلی حج کرے تو محرم کا ساتھ ضروری ہے لیکن اگر حج ِفرض کرتی ہے تو پھر اگرچہ کچھ اختلاف ہے لیکن راجح یہی ہے کہ تب بھی محرم ضروری ہے۔ جیسا کہ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((لاَ یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ، وَلاَ تُسَافِرَنَّ امْرَأَۃٌ إِلَّا وَمَعَہَا مَحْرَمٌ)) ’’کوئی مرد کسی عورت کے بالکل بھی تنہائی اختیار نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت اپنے محرم کے بغیر سفر کرے۔‘‘ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور بولا: اے اللہ کے رسول! میرا نام تو فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے، جبکہ میری بیوی نے ایک ضروری کام (حج) کے لیے (سفر پہ) جانا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اذْہَبْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ)) [1] ’’جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘ اس میں بھی دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے: ۱: یہ عورت اپنے اس محرم کے ساتھ جائے جو اس کے لیے ہمیشہ کے لیے محرم ہے، مثلاً اس کا بیٹا، اس کا بھائی، اس کاچچا اور ماموں، بھتیجے اور بھانجے، سسر اور داماد وغیرہ۔
[1] صحیح البخاری: ۱۸۶۲۔ صحیح مسلم: ۳۲۵۹.