کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 401
4.مکمل آزادی: جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَیُّمَا عَبْدٍ حَجَّ ثُمَّ أُعْتِقَ فَعَلَیْہِ أَنْ یَحُجَّ حَجَّۃٌ أُخْرٰی)) [1] ’’جو بھی غلام حج کرے، پھر اسے آزاد کر دیا جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دوسرا حج کرے۔‘‘ جناب حجاج بن عمرو انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ کُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَیْہِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ)) [2] ’’جس کی ہڈی ٹوٹ جائے یا لنگڑا ہو جائے تو وہ حلال ہو جاتا ہے (یعنی وہ احرام کھول سکتا ہے) اور اس پر آئندہ سال حج کرنا لازم ہو گا۔‘‘ 5.استطاعت: حج اسی شخص پر فرض ہوتا ہے جس کے پاس استطاعت ہو، اگر استطاعت نہ ہو تو یہ فریضہ عائد نہیں ہوتا۔ استطاعت سے مراد درج ذیل امور ہیں: (1) راستے کا پُر امن ہونا: جو لوگ حج کرنا چاہتے ہیں ان کے راستے پُر امن ہوں، ان کو اپنی جان و مال اور عزت کا خطرہ نہ ہو، ورنہ وہ استطاعت نہ رکھنے کے حکم میں ہوں گے۔ (2) بدن کا صحیح و سالم ہونا: حج پر جانے والا شخص ایسی بیماری میں مبتلا نہ ہو کہ جو مناسکِ حج کی ادائیگی میں رکاوٹ بن سکے، مثلا اس کی ٹانگیں ناکارہ ہیں، یا دائمی مریض ہے، یاپھر کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہے اور وہ اس بات کی قدرت نہیں رکھتا کہ حج کے اعمال پورے ادا کرسکے۔ اس صورتِ حال میں
[1] السنن الکبرٰی للبیھقی: ۹۸۴۹. [2] سنن أبی داؤد: ۱۸۶۲۔ صحیح الجامع: ۶۵۲۱.