کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 399
((تَعَجَّلُوا إِلَی الْحَجِّ، فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَا یَدْرِی مَا یَعْرِضُ لَہٗ))[1] ’’حج کے لیے جلدی کرو، کیونکہ بلاشبہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اسے کیا معاملہ درپیش آ جائے۔‘‘ یعنی اگر وہ استطاعت کے باوجود بلاوجہ حج کو مؤخر کرتا رہے تو ممکن ہے کہ بعد میں کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جائے کہ جس کی وجہ سے وہ حج پر جا ہی نہ سکے۔ اس لیے اگر استطاعت ہو تو جتنا جلدی ہو سکے حج کا فریضہ ادا کر لینا چاہیے۔ وجوبِ حج کی شروط 1.اسلام: فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے بندے کا مسلمان ہونا ضروری ہے، کیونکہ مشرک شخص کو مسجدحرام کے قریب بھی آنے کی اجازت نہیں ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا ﴾ [التوبۃ: ۲۸] ’’مشرکین تو ناپاک ہی ہیں، سو وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔‘‘ اور جناب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَلاَ لاَ یَحُجُّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِکٌ وَلاَ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَانٌ)) [2] ’’خبردار! اس سال (یعنی فتح مکہ) کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ ہی کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف کرے۔‘‘ 2.عقل: فریضۂ حج کے عائد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ عقل مند ہو، پاگل نہ ہو، کیونکہ
[1] مسند أحمد :۱۳۳۷۔ صحیح الجامع: ۲۹۵۷. [2] صحیح البخاری: ۱۶۲۲.