کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 394
یَزِیْدُ، وَلَکَ مَا أَخَذْتَ یَا مَعْنُ)) [1] ’’میرے والد یزید نے خیرات کی کچھ اشرفیاں نکال کر مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دِیں (تاکہ وہ انہیں تقسیم کر دے) چنانچہ میں گیا اور وہ اشرفیاں اس سے لے کر اپنے گھر چلا آیا۔ (میرے والد کو پتا چلا تو) انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ بالآخر میں یہ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا: یزید! تمہاری جو نیت تھی وہ تمہیں مل گیا (یعنی صدقے کا اجر و ثواب) اور اے معن! جو تم نے لیا ہے وہ تمہارا ہے۔‘‘ نوٹ (1):… خاوند اپنی بیوی کو زکوٰۃنہیں دے سکتا ،لیکن بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی کو فرمایا تھا کہ: ((زَوْجُکِ وَوَلَدُکِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِہٖ عَلَیْہِمْ)) [2] ’’تمہارا خاوند اور تمہارے بچے اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ تم ان کو صدقہ دو۔‘‘ نوٹ (2):… زکوٰۃ کامال پیش کرنے والے کے حق میں خیر وبرکت کی دعاکرناسنت ہے، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: کَانَ النَّبِیُّ إِذَا أَتَاہُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِہِمْ قَالَ: ((اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ فُلَانٍ)) فَأَتَاہُ أَبِی بصَدَقَتِہٖ فَقَالَ: ((اللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی آلِ أَبِیْ أَوْفٰی)) [3] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادتِ مبارکہ تھی کہ جب کوئی قوم آپ کے پاس اپنے صدقے کا مال لاتی تو آپ فرماتے: ’’اے اللہ! فلاں کی آل اولاد پر رحمت فرما۔‘‘ چنانچہ میرے والد گرامی آپ کے پاس صدقہ لے کر آئے تو آپ نے فرمایا: اے اللہ! ابواوفٰی کی آل اولاد پر رحمت فرما۔‘‘
[1] صحیح البخاری: ۱۴۲۲. [2] صحیح البخاری:۱۴۶۲، ۱۴۶۶. [3] صحیح البخاری: ۱۴۹۷، ۴۱۶۶، ۶۲۳۲، ۶۳۵۹۔ صحیح مسلم: ۲۴۸۹.