کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 393
’’اگر تم چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں، جبکہ اس میں مال دار اور قوی شخص، جو کمانے کی اہلیت رکھتا ہو، کا حصہ نہیں ہے۔‘‘ 4. کافر شخص: سیدنا ا بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ہِمْ وَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ہِمْ)) [1] ’’(زکوٰۃ کا مال) مسلمان مال داروں سے وصول کیا جائے اور مسلمان غریبوں کو دے دیا جائے۔‘‘ 5. والدین اور اولاد: سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ، إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ، فُکُلُوْا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ)) [2] ’’تم اور تمہارا مال تمہارے والد کے لیے ہی ہیں، بلاشبہ تمہاری اولاد تمہاری کمائی کا سب سے پاکیزہ حصہ ہے، لہٰذا اپنی اولاد کی کمائی سے کھاؤ۔‘‘ معلوم ہواکہ والد کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی بلکہ ان کی خدمت اولاد پر فرض ہے۔ اور اگر بھول کر یا غیرارادی طور پر ایسا ہو گیا تو اس کے متعلق سیدنا معن بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اور میرے والد اور داد اخفش بن حبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری منگنی بھی کرائی اور نکاح بھی پڑھایا ، میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا کہ: وَکَانَ أَبِیْ یَزِیْدُ أَخْرَجَ دَنَانِیْرَ یَتَصَدَّقُ بِہَا فَوَضَعَہَا عِنْدَ رَجُلٍ فِی الْمَسْجِدِ فَجِئْتُ فَأَخَذْتُہَا فَأَتَیْتُہٗ بِہَا، فَقَالَ: وَاللّٰہِ مَا إِیَّاکَ أَرَدْتُّ فَخَاصَمْتُہُ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَالَ: ((لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا
[1] صحیح البخاری: ۱۳۹۵، ۱۴۵۸، ۱۴۹۶. [2] صحیح الجامع:۱۴۸۷.