کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 312
عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ)) [1] ’’اپنے بچوں کو نماز کاحکم دو جبکہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب دس سال کے ہوجائیں ان کو نمازنہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔‘‘ نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان اور کافر میں فرق، نماز چھوڑنا قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلٰوۃِ)) [2] ’’بے شک مسلمان اور کافر ومشرک کے درمیان صرف نماز کا فرق ہے۔‘‘ اور نماز کی اہمیت کے پیش نظر قیامت کے دن سب سے پہلا سوال بھی اسی کے بارے میں ہوگا۔ جیساکہ سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ أَوَّلَ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عَمَلِہٖ صَلَاتُہٗ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ)) [3] ’’یقینا قیامت کے دن سب سے پہلے بندے کے اعمال میں سے اس کی نماز کاحساب ہوگا۔ اگر وہ درست نکلی تو کامیاب وکامران ہو گا اور اگر وہ خراب نکلی تونقصان اٹھائے گا اور خسارہ پائے گا۔‘‘ چنانچہ نمازی آدمی جہاں دنیا میں لذت وراحت اور سکون پاتا ہے وہاں قیامت کو تمام گناہوں سے پاک ہوکر سرخرو ہوگا۔ جیساکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَرَأَیْتُمْ لَوْأَنَّ نَہْراً بِبَابِ أَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ مِنْہُ کُلَّ یَوْمٍ خَمْسَ
[1] سنن أبی داود: ۴۹۵۔ سنن الترمذی: ۴۰۷. [2] صحیح مسلم: ۲۴۲. [3] سنن الترمذی: ۴۱۳۔ سنن النسائی: ۴۶۴.