کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 254
((اَلْمُؤْمِنُ یَأْلَفُ وَیُؤْلَفُ، وَلَا خَیرَ فِیمَنْ لَا یَأْلَفُ وَلَا یُؤْلَفُ، وَخَیرُھُمْ أَنْفَعُھُمْ لِلنَّاسِ)) [1] ’’مومن (دوسرے مومن بھائیوں سے) اُلفت رکھتا ہے اور اس سے بھی اُلفت رکھی جاتی ہے اور اس شخص میں کوئی خیروبھلائی نہیں ہوتی جو نہ تو خود کسی سے اُلفت رکھتا ہو اور نہ اس سے کوئی اُلفت رکھے، لوگوں میں سے بہترین شخص وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہو۔‘‘ لہٰذا مسلمان کو سراپا اُلفت و محبت ہونا چاہیے، نہ کسی کو ایسی بات کہے جس سے اس کا دِل دُکھے اور نہ ہی کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جو کسی کے لیے اذِیت کا باعث بنے۔ تبھی وہ اللہ تعالیٰ کی اور لوگوں کی محبتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ 10. زیادہ فضیلت کا حامل کون؟ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا تَحَابَّ اثْنَانِ فِی اللّٰہِ إِلَّا کَانَ أَفْضَلُہُمَا أَشَدَّہُمَا حُبًّا لِصَاحِبِہٖ))[2] ’’جو بھی دو آدمی آپس میں رضائے الٰہی کی خاطر محبت رکھتے ہیں، ان میں سے افضل وہ ہے جو اپنے ساتھی سے؛ اس کی نسبت زیادہ محبت کرتا ہے۔‘‘ یعنی ان دونوں میں جس کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے زیادہ محبت ہو گی اور وہ اس کے بارے میں زیادہ خلوص اور جذبۂ عقیدت رکھتا ہو گا، وہی افضل ہو گا اور زیادہ اجر و ثواب پائے گا۔ اس فرمان سے مقصود صرف اس بات کی ترغیب دلانا ہے کہ ہر شخص اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرے۔
[1] صحیح الجامع: ۶۶۲۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ: ۴۲۶. [2] صحیح ابن حبان: ۲۵۰۹.