کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 230
((ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا، وَعَلٰی جَنْبَتَیْ الصِّرَاطِ سُورَانِ، فِیہِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَۃٌ، وَعَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاۃٌ، وَعَلٰی بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ یَقُولُ: ((أَیُّہَا النَّاسُ، ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِیعًا، وَلَا تَتَعَرَّجُوا، وَدَاعٍ یَدْعُو مِنْ فَوْقِ الصِّرَاطِ، فَإِذَا أَرَادَ یَفْتَحُ شَیْئًا مِنْ تِلْکَ الْأَبْوَابِ، قَالَ: وَیْحَکَ لَا تَفْتَحْہُ، فَإِنَّکَ إِنْ تَفْتَحْہُ تَلِجْہُ، وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ، وَالسُّورَانِ: حُدُودُ اللّٰہِ، وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَۃُ: مَحَارِمُ اللّٰہِ، وَذَالِکَ الدَّاعِی عَلٰی رَأْسِ الصِّرَاطِ: کِتَابُ اللّٰہِ، وَالدَّاعِی مِنْ فَوْقِ الصِّرَاطِ: وَاعِظُ اللّٰہِ فِی قَلْبِ کُلِّ مُسْلِمٍ)) [1] ’’اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ راستے کے دونوں اطراف دیواریں ہیں، ان میں دروازے ہیں جوکہ کھلے ہوئے ہیں اور دروازوں پر پردے گرے ہوئے ہیں اور راستے کے دروازے میں پکارنے والا کہہ رہا ہے: اے لوگو! تم سب اس راستے میں آ جاؤ اور کج روی اختیار نہ کرو، اور ایک آدمی راستے کے درمیان میں بلا رہا ہے اور جب تم میں سے کوئی ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہے تو وہ کہتا ہے: تیرا برا ہو، اسے نہ کھولنا، اگر تو نے اسے کھولا تو اس میں داخل ہو جائے گا۔ اور وہ (سیدھا) راستہ اسلام کا راستہ ہے اور دیواریں اللہ کی حدود ہیں اوروہ کھلے ہوئے دروازے اللہ کی طرف سے حرام کردہ کام ہیں اور راستے کے کنارے پر پکارنے والی؛ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید ہے۔اور راستے کے اوپر سے پکارنے والا ہر مسلمان کے دل میں اللہ کی طرف سے واعظ ہے۔‘‘ سیدنا سعدان بن نصر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] مسند أحمد: ۱۷۶۳۴۔سنن الترمذی: ۲۸۵۹.