کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 224
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے جس پر پالان رکھا ہوا تھا اور نیچے فدک کی بنی ہوئی ایک مخملی چادر بچھی ہوئی تھی۔ آپ نے اپنے پیچھے اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو بٹھایا تھا اور آپ بنوحارث بن خزرج میں سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیمارپرسی کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ اور یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ایک ایسی مجلس کے پاس سے گزرے جس میں مسلمان، بت پرست مشرک اور یہودی سب شریک تھے۔ ان میں عبداللہ بن اُبی بن سلول بھی تھا۔ اس مجلس میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب مجلس پر سواری کا گرد و غبار پڑا تو عبداللہ بن اُبی نے اپنی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا: ہمارے اوپر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مجلس کو سلام کیا اور وہاں رُک گئے۔ آپ نے سواری سے اُتر کر انہیں اللہ کے دِین کی دعوت دی اور قرآنِ مجید کی تلاوت فرمائی۔ عبداللہ بن اُبی کہنے لگا: اے آدمی! جو تم کہتے ہو اگر یہ حق ہے تو اس سے اچھی کوئی دوسری چیز نہیں ہے، لہٰذا ہماری مجالس میں آ کر ہماری اذِیت کا باعث مت بنو، اپنے گھر چلے جاؤ، جو کوئی ہم میں سے تمہارے پاس آئے اسے بیان کیا کرو۔ یہ سن کر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ بولے: آپ ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں، کیونکہ ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ پھر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں اس بات پر بحث و تکرار چھڑ گئی۔ قریب تھا کہ وہ آپس میں لڑ پڑتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسلسل خاموش کراتے رہے۔ جب وہ چپ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھ کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور فرمایا: اے سعد! کیا تم نے سنا ہے آج ابوحباب نے کیا بات کہی ہے؟ اس نے یہ یہ باتیں کی ہیں۔ آپ کا اشارہ عبداللہ بن اُبی کی طرف تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس کو معاف کر دیں اور اس سے درگزر فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کو دیا ہے وہ حق ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اس بستی کے لوگ اس بات پر