کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 211
وَآنائَ النَّہَارِ)) [1] ’’دو ہی قسم کے لوگوں کے بارے میں رشک ہوسکتاہے: (ایک) اس شخص کے بارے میں جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن(کاعلم)دیا ہو اور وہ اس کی رات دِن تلاوت کرتا ہو اور (دوسرا) وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال ودولت سے نوازا ہو اور وہ اسے شب وروز خرچ کرتا رہتا ہو۔‘‘ لہٰذا تاجروں کو بھی دین کی دعوت دیتے رہنا چاہیے اور ان کے معاملات کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، انہیں تجارت کے شرعی اصول بتلانے چاہئیں اور غیرشرعی اقسامِ تجارت سے بچانے کی کوشش کرنی چاہیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باقاعدہ تاجروں کو مخاطب کر کے تبلیغ فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم تجارت کیا کرتے تھے، ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ إِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ)) [2] ’’اے تاجروں کی جماعت! جھوٹ بولنے سے مکمل اجتناب کرو۔‘‘ اور قیس بن ابی غرزہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ ہٰذَا الْبَیْعَ یَحْضُرُہُ الْحَلِفُ وَالْکَذِبُ، فَشُوبُوا بَیْعَکُمْ بِالصَّدَقَۃِ)) [3] ’’اے تاجروں کی جماعت! سودا کرتے وقت قسم اور جھوٹ صادر ہو جاتے ہیں، لہٰذا تم اپنی تجارت کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کیا کرو۔‘‘ فقراء کی تربیت و دعوت کا میدان عوام الناس کی ایک کثیر تعداد فقراء اور غرباء پر مشتمل ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی طرف
[1] صحیح البخاری: ۷۰۹۱۔ صحیح مسلم: ۸۱۵. [2] صحیح الترغیب والترھیب: ۱۷۹۳. [3] سنن الترمذی: ۱۲۰۸۔ سنن النسائی: ۳۷۹۷۔ صحیح الجامع:۷۹۷۳.