کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 207
((سَیَأْتِی عَلَی النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ، یُصَدَّقُ فِیہَا الْکَاذِبُ، وَیُکَذَّبُ فِیہَا الصَّادِقُ، وَیُؤْتَمَنُ فِیہَا الْخَائِنُ، وَیُخَوَّنُ فِیہَا الْأَمِینُ، وَیَنْطِقُ فِیہَا الرُّوَیْبِضَۃُ))، قِیلَ: وَمَا الرُّوَیْبِضَۃُ؟ قَالَ: ((الرَّجُلُ التَّافِہُ فِی أَمْرِ الْعَامَّۃِ)) [1] ’’عنقریب لوگوں پر دھوکے سے بھرپور سال آئیں گے۔ ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا کہا جائے گا۔ بددیانت کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امانت دار کو بددیانت کہا جائے گا، اور رُوَیْبِضَۃ باتیں کریں گے۔‘‘ پوچھا گیا: رُوَیْبِضَۃ (کا مطلب) کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نااہل آدمی عوام کے معاملات میں رائے دے گا۔‘‘ تو ایسے حالات میں اس اَمر کی اشد ضرورت ہے کہ جہاں جھوٹ کی ترویج کرنے والے موجود ہیں وہاں حق اور سچ کی دعوت دینے والے بھی اپنا کردار ادا کریں اور اس میدان کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کے کونے کونے اور بندے بندے تک دین کا پیغام پہنچائیں۔ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: أَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم دَخَلَ عَلَیْہَا فَزِعًا یَقُوْلُ: ((لَا إِلٰہ إِلاَّ اللّٰہُ وَیْلٌ لِلْعَرَبِ مِنْ شَرٍّ قَدِ اقْتَرَبَ، فُتِحَ الْیَوْمَ مِنْ رَدْمِ یَأْجُوْجَ وَمَأْجُوْجَ مِثْلُ ہٰذِہٖ))، وَحَلَّقَ بِإِصْبَعِیْہِ الْإِبْہَامِ وَالَّتِیْ تَلِیْھَا فَقَالَتْ زَیْنَبُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا: أَنُہْلَکُ وَفِیْنَا الصَّالِحُوْنَ؟ قَالَ: نَعَمْ إِذَا کَثُرَ الْخَبَثُ۔[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ایک دِن) ان کے ہاں گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا: لاالٰہ الااللہ! عربوں کی اس برائی سے ہلاکت ہو گی جو بالکل قریب آ لگی ہے۔
[1] سنن ابن ماجہ: ۴۰۳۶. [2] صحیح البخاری: ۳۵۹۸، ۳۳۴۶۔ صحیح مسلم: ۲۸۸۰.