کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 205
وَإِنِّی أَتَکَشَّفُ فَادْعُ اللّٰہَ لِی، قَالَ: ((إِنْ صَبَرْتِ فَلَکِ الْجَنَّۃَ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُعَافِیَکِ)) قَالَتْ: إِنِّی أَتَکَشَّفُ فَادْعُ اللّٰہَ أَلَا أَتَکَشَّفَ، فَدَعَا لَہَا۔[1] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں جنتی عورت نہ دِکھاؤں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ تو انہوں نے کہا: یہ سیاہ فام عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اور میں بے پردہ ہو جاتی ہوں، لہٰذا میرے لیے اللہ تعالیٰ سے (شفا کی) دعا فرما دیجیے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم صبر کر لو تو تمہیں جنت ملے گی، اور اگر تم چاہتی ہو تو میں اللہ سے دعا کر دیتا ہوں، وہ تجھے شفا عطا فرما دے گا۔ تو اس نے کہا: میں بے پردہ ہو جاتی ہوں، بس آپ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرما دیں کہ میں بے پردہ نہ ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی۔ اسی طرح سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم دَخَلَ عَلٰی أُمِّ السَّائِبِ وَہِیَ تُزَفْزِفُ، فَقَالَ: ((مَا لَکِ تُزَفْزِفِینَ؟)) قَالَتْ: الْحُمّٰی لَا بَارَکَ اللّٰہُ فِیہَا، قَالَ: ((لَا تَسُبِّی الْحُمّٰی، فَإِنَّہَا تُذْہِبُ خَطَایَا بَنِی آدَمَ کَمَا یُذْہِبُ الْکِیرُ خَبَثَ الْحَدِیدِ)) [2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُمِ سائب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے تو وہ کپکپا رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ کپکپا کیوں رہی ہو؟ انہوں نے کہا: بخار ہوا ہے، اللہ اس کو بے برکت کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بخار کو برا بھلا مت کہو، کیونکہ یہ بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جس
[1] صحیح البخاری: ۵۶۵۲۔صحیح مسلم: ۲۵۷۶. [2] صحیح مسلم: ۲۵۷۵.