کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 204
اس مشن کے لیے موزوں ترین میدان ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ مریض کے لیے ہر شخص ایمبولینس لانے، چیک اپ کرنے، میڈیسن دینے، ڈاکٹر کو بلا کر لانے میں مشغول و مصروف ہوتا ہے لیکن کوئی بھی اس مریض کو دعا کی ترغیب دینے، اللہ سے تعلق جوڑنے، اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے، صبر کی اور کلمہ پڑھنے کی تلقین نہیں کر رہا ہوتا، حالانکہ اس حالت میں روحانی علاج اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا داعیان کو یہ میدان اپنانا چاہیے اور اس میں مؤثر طریقے سے دعوت کا کام کرنا چاہیے۔ اس میدان میں دعوت کا کام کرنے کے سلسلے میں ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثبوت ملتا ہے، جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: کَانَ غُلاَمُ یَہُوْدِیٌ یَخْدِمُ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَمَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم یَعُوْدُہُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِہٖ فَقَالَ: ((أَسْلِمْ)) فَنَظَرَ إِلٰی أَبِیْہِ وَہُوَ عِنْدَہُ فَقَالَ لَہُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم وَہُوَ یَقُوْلُ: ((الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَنْقَذَہُ (بِیْ) مِنَ النَّارِ)) [1] ’’ایک یہودی بچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیاکرتا تھا۔وہ بیمار ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اوراس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور فرمانے لگے کہ مسلمان ہو جاؤ۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھاجو اس کے پاس ہی تھا۔ تو باپ نے کہا: ابو القاسم کی بات مان لو۔ چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلتے ہوئے فرما رہے تھے: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو (میرے ذریعے سے) آگ سے بچا لیا۔‘‘ اور عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: قَالَ لِی ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أُرِیکَ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ؟ قُلْتُ: بَلٰی، قَالَ: ہٰذِہِ الْمَرْأَۃُ السَّوْدَائُ أَتَتِ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم فَقَالَتْ: إِنِّی أُصْرَعُ
[1] صحیح البخاری: ۱۳۵۶.