کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 192
الْعَامِلِ)) [1] ’’جس نے علم سکھلایا، اس کو اس شخص کا اجر بھی ملے گا جو اس پر عمل کرے گا (اور) عمل کرنے والے کے اجر سے بھی کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘ اسی طرح آپ طلبہ کو علم کی اہمیت، فضیلت اور اس کے تقاضے بتلائیں کہ آپ پر لوگوں کی اصلاح اور انہیں اخلاقی و شرعی اقدار سے روشناس کرانے کی ذِمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ہی علم سے منسلک لوگوں کی اس قدر فضیلت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ خَارِجٍ خَرَجَ مِنْ بَیتِہٖ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ إِلَّا وَضَعَتْ لَہُ الْمَلَائِکَۃُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا بِمَا یَصْنَعُ حَتّٰی یَرْجِعَ)) [2] ’’جو بھی شخص اپنے گھر سے حصولِ علم کے لیے نکلتا ہے، فرشتے اس کے لیے اپنے پَر بچھاتے ہیں، اس عمل سے خوش ہو کر جو وہ کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنْ سَلَکَ طَرِیقًا یَطْلُبُ فِیہِ عِلْمًا سَلَکَ اللّٰہُ بِہٖ طَرِیقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الْمَلَائِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَہَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ)) [3] ’’جو شخص حصولِ علم کے لیے کسی راستے پر گامزن ہو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے اور فرشتے طالبِ علم سے خوش ہو کر اپنے پَراس کے نیچے بچھادیتے ہیں۔‘‘ طلبہ میں اس بات کا شعور اُجاگر کیا جائے کہ آپ پر صاحبِ علم ہونے کے ناطے سے
[1] صحیح الجامع: ۶۶۱۱. [2] صحیح الجامع: ۵۸۸۳. [3] سنن أبی داود: ۳۶۴۱۔ سنن الترمذی: ۲۶۸۲۔ سنن ابن ماجہ: ۲۲۳۔ صحیح الجامع للألبانی: ۶۲۹۷.