کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 180
یمامہ کے حاکم ھوذہ بن علی کی طرف بھیجا، علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو ھجر کے سردار منذر بن ساوٰی کی طرف بھیجا، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو عمان کے دو بادشاہوں جیفر اور عباد کی طرف بھیجا، دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصر کی طرف، شجاع بن وھب اَسدی رضی اللہ عنہ کو منذر بن حارث کی طرف اور عمرو بن اُمیہ رضی اللہ عنہ کو نجاشی کی طرف بھیجا۔ اور یہ تمام دعوتی نمائندے (اپنا فریضہ ادا کر کے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے واپس آ گئے تھے، سوائے علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کے، کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو وہ اس وقت بحرین میں تھے۔[1] رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج مبارک یہ تھا کہ جب آپ کسی مہم کے لیے لشکر بھیجتے تو سب سے پہلے انہیں دعوت دیتے، اور اگر کسی لشکر کا امیر کسی صحابی کو مقرر فرما کر بھیجتے تو اس کو یہ حکم دیتے تھے کہ آپ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے انہیں دعوت دینی ہے، یعنی جہاد کے میدانوں میں بھی سب سے پہلے دعوت دی جاتی تھی، سو اگر وہ دعوت قبول کر لیتے تو لڑائی کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: أَنَّ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم أَتَاہُ رِعْلٌ وَذَکْوَانُ وَعُصَیَّۃُ وَبَنُو لَحْیَانَ، فَزَعَمُوا أَنَّہُمْ قَدْ أَسْلَمُوا، وَاسْتَمَدُّوہُ عَلٰی قَوْمِہِمْ، فَأَمَدَّہُمُ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم بِسَبْعِینَ مِنَ الأَنْصَارِ، قَالَ أَنَسٌ: کُنَّا نُسَمِّیہِمُ القُرَّائَ، یَحْطِبُونَ بِالنَّہَارِ وَیُصَلُّونَ بِاللَّیْلِ، فَانْطَلَقُوا بِہِمْ، حَتّٰی بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَۃَ، غَدَرُوا بِہِمْ وَقَتَلُوہُمْ، فَقَنَتَ شَہْرًا یَدْعُو عَلٰی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لَحْیَانَ۔[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رِعل، ذکوان، عصیہ اور بنولحیان قبائل کے لوگ آئے اور انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں اور انہوں نے اپنی قوم کے
[1] المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۶۴۴۴. [2] صحیح البخاری: ۳۰۶۴.