کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 163
اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا ﴾ [العنکبوت: ۱۴] ’’آپ ان میں پچاس کم ایک ہزار سال رہے۔‘‘ یعنی حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو دِین کی دعوت دی اور بالکل بھی دِلبرداشتہ نہیں ہوئے، حالانکہ اتنی لمبی مدت کی محنت کے بعد بہت کم تعداد ہی اسلام لائی، لیکن آپ مسلسل اور مستقل مزاجی سے لگے رہے اور بار بار اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّ أَوَّلَ مَا دَخَلَ النَّقْصُ عَلٰی بَنِی إِسْرَائِیلَ کَانَ الرَّجُلُ یَلْقَی الرَّجُلَ، فَیَقُولُ: یَا ہٰذَا، اتَّقِ اللّٰہَ وَدَعْ مَا تَصْنَعُ، فَإِنَّہٗ لَا یَحِلُّ لَکَ، ثُمَّ یَلْقَاہُ مِنَ الْغَدِ، فَلَا یَمْنَعُہٗ ذَالِکَ أَنْ یَکُونَ أَکِیلَہٗ وَشَرِیبَہٗ وَقَعِیدَہٗ، فَلَمَّا فَعَلُوا ذَالِکَ ضَرَبَ اللّٰہُ قُلُوبَ بَعْضِہِمْ بِبَعْضٍ، ثُمَّ قَالَ: ﴿ لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ﴾ إِلٰی قَوْلِہٖ:﴿ فَاسِقُونَ ﴾ [المائدۃ: ۸۱]، ثُمَّ قَالَ: کَلَّا وَاللّٰہِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْہَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلٰی یَدَیِ الظَّالِمِ، وَلَتَأْطُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا، وَلَتَقْصُرُنَّہٗ عَلَی الْحَقِّ قَصْرًا)) [1] ’’پہلا پہلا نقص اور عیب جو بنی اسرائیل میں داخل ہوا، وہ یہ تھا کہ ان میں سے کوئی شخص دوسرے کو ملتا تو اسے کہتا تھا: ارے! اللہ سے ڈرو اور جو کر رہے ہو اس سے باز آ جاؤ، یہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔ پھر اگلے دن ملتا تو اس کے لیے اس کا ہم نوالہ، ہم پیالہ اور ہم مجلس ہونے میں اسے کوئی رکاوٹ نہ ہوتی
[1] سنن الترمذی: ۳۰۴۸ ۔ سنن أبی داود: ۴۳۳۶۔ مسند أحمد: ۳۷۱۲.