کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 159
’’وہ (یعنی انس رضی اللہ عنہ ) اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر سے واپس آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں، جنہیں آپ نے اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ راستے میں اونٹنی کا پاؤں پھسلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صفیہ رضی اللہ عنہا دونوں گر پڑے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میرے خیال کے مطابق وہ (ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ) اپنے اونٹ سے کود پڑے اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر) عرض کیا: اے اللہ کے نبی! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے، کیا آپ کو چوٹ تو نہیں آئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس عورت (صفیہ) کا پتا کرو۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنے چہرے پر کپڑا ڈال کر سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کی طرف چل دِیے۔ پھر انہوں نے وہ کپڑا ان پر ڈال دیا۔ تو صفیہ رضی اللہ عنہا اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے سواری درست کی تو دونوں اس پر سوار ہو گئے۔ وہ راستے میں چلتے رہے حتیٰ کہ وہ مدینہ کی سرزمین کے قریب پہنچے یا دُور سے مدینہ طیبہ کو دیکھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((آیِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ)) ’’ہم سفر سے لوٹنے والے ہیں، توبہ کرنے والے، اپنے رب کی عبادت کرنے والے اور اس کی حمد و ثنا کرنے والے ہیں۔‘‘ آپ مسلسل یہ کلمات کہتے رہے، حتیٰ کہ مدینہ طیبہ میں داخل ہو گئے۔‘‘ 10. مرد Liveسوال کر سکتا ہے جبکہ عورت لکھ کر سوال کرے: گزشتہ صفحات میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت گزر چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلتَّسْبِیحُ لِلرِّجَالِ، وَالتَّصْفِیقُ لِلنِّسَائِ)) [1] ’’تسبیح (سبحان اللہ کہنا) مردوں کے لیے ہے اور تالی بجانا عورتوں کے لیے۔‘‘ تو جب نماز کے حساس معاملے میں بھی عورت کو مردوں کے سامنے اپنی آواز نکالنے کی
[1] صحیح البخاری: ۱۲۰۳۔ صحیح مسلم: ۴۲۳.