کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 128
کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے معانی کو بھی سمجھنا چاہیے، اس کا فہم و تدبر حاصل کرنا چاہیے اور اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے، کیونکہ جو قرآن کے ساتھ تعلق جوڑ لیتے ہیں وہ اللہ کے اپنے اور خاص لوگ بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((إِنَّ لِلّٰہِ أَہْلِینَ مِنَ النَّاسِ)) ’’یقینا اللہ تعالیٰ کے بھی کچھ اپنے لوگ ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ (سعادت مند اور خوش قسمت) کون سے لوگ ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ہُمْ أَہْلُ الْقُرْآنِ، أَہْلُ اللّٰہِ وَخَاصَّتُہٗ))[1] ’’وہ قرآن والے ہیں، وہی اللہ کے اپنے اور اس کے خاص لوگ ہیں۔‘‘ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: سَمِعْنَا أَنَّ قِرَائَ ۃَ الْقُرْآنِ أَفْضَلُ الذِّکْرِ اِذَا عُمِلَ بِہٖ۔[2] ’’ہم نے سنا کہ قرآن پڑھنا سب سے زیادہ فضیلت والا ذِکر ہے جب کہ اس پر عمل کیا جائے۔‘‘ اور امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اِعْلَمْ أَنَّ تِلَاوَۃَ الْقُرْآنِ ھِيَ أَفْضَلُ الْأَذْکَارِ وَالْمَطْلُوبُ الْقِرَائَ ۃُ بِالتَّدَبُّرِ۔[3] ’’جان لیجیے کہ تلاوتِ قرآن ہی افضل ذِکر ہے اور مطلوب تدبر کے ساتھ قرائت کرنا ہے۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بندہ کہتا ہے کہ:
[1] سنن ابن ماجہ: ۲۱۵. [2] فقہ الأدعیۃ والأذکار: ۱-۵۰. [3] الأذکار للنووی: ۱۰۱.