کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 123
دِلوں کا اطمینان ہے۔ اللہ کا ذِکر کرنے والے کے ساتھ اللہ کی نصرت اور تائید رہتی ہے۔ دعوت کے میدان میں عملی طور پر اللہ سے تعلق جوڑنے کے ساتھ ساتھ زبانی طور پر بھی اس کی تسبیح و تحمید اور تکبیر و ثناء کرتے رہنا چاہیے تاکہ قلب و لسان؛ دونوں ہی اپنے خالق کی طرف متوجہ اور مشغول رہیں۔ داعی کو ذِکر الٰہی سے حاصل ہونے والا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان اس کی راہ میں رُکاوٹ نہیں ڈال سکتا، کیونکہ وہ ذکر و تلاوت کے ذریعے شیطان کو پچھاڑ دیتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے شیطان غافلوں کو پچھاڑے رکھتا ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی کا قول ہے: إِذَا تَمَکَّنَ الذِّکْرُ مِنَ الْقَلْبِ فَإِنْ دَنَا مِنْہُ الشَّیْطَانُ صَرَعَہٗ کَمَا یَصْرَعُ الْإِنْسَانَ إِذَا دَنَا مِنْہُ الشَّیْطَانُ، فَیَجْتَمِعُ عَلَیْہِ الشَّیَاطِینُ فَیَقُولُونَ: مَا لِہٰذَا؟ فَیُقَالُ: قَدْ مَسَّہُ الْإِنْسِیُّ۔[1] ’’جب کسی دِل میں ذِکر مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر اگر شیطان اس کے قریب آتا ہے تو وہ اسی طرح مغلوب ہو جاتا ہے جیسے شیطان کی وسوسہ اندازی سے انسان مغلوب ہو جاتا ہے، پھر ایسے مغلوب شیطان کے آس پاس دوسرے شیاطین اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اسے کیا ہوا؟ جواب ملتا ہے کہ اسے کسی انسان نے چھو لیا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں داعی کے لائقِ شان ہی نہیں ہے کہ وہ ذِکر کے فضائل و ثمرات سے محروم رہے، اور ذکر کے ایسے ایسے ثمرات ہیں کہ بندہ انہیں حاصل کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: ((أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ، وَأَزْکَاہَا عِنْدَ مَلِیکِکُمْ، وَأَرْفَعِہَا فِی دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٌ لَکُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّہَبِ وَالوَرِقِ، وَخَیْرٌ لَکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَہُمْ وَیَضْرِبُوا
[1] مدارج السالکین لابن قیم الجوزیۃ: ۲/ ۴۲۱، ۴۲۲.