کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 122
لِلْمُذْنِبِ: اذْہَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّۃَ بِرَحْمَتِی، وَقَالَ لِلْآخَرِ: اذْہَبُوا بِہٖ إِلَی النَّارِ)) [1] ’’بنی اسرائیل میں دو آدمی آپس میں بھائی بنے ہوئے تھے۔ ایک گناہوں میں ملوث تھا جبکہ دوسرا عبادت میں کوشاں رہتا تھا۔ عبادت میں راغب رہنے والا جب بھی دوسرے کو گناہ میں دیکھتا تو اسے کہتا کہ باز آ جاؤ۔ آخر ایک دن اس نے دوسرے کو گناہ میں پایا تو اسے کہا کہ باز آ جاؤ۔ تو اس نے کہا: مجھے رہنے دو، میرا معاملہ میرے رب کے ساتھ ہے۔ کیا تم مجھ پر نگران بنا کر بھیجے گئے ہو؟ تو اس نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تجھے معاف نہیں کرے گا، یا (کہا کہ) اللہ تجھے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ چنانچہ جب وہ دونوں فوت ہو گئے اور رب العالمین کے ہاں اکٹھے ہوئے تو اللہ نے عبادت میں کوشاں رہنے والے سے فرمایا: کیا تو میرے متعلق (زیادہ) جاننے والا تھا؟ یا جو کچھ میرے ہاتھ میں ہے، تجھے اس پر قدرت حاصل تھی؟ اور پھر گناہ گار سے فرمایا: جا میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جا۔ اور دوسرے کے متعلق فرمایا: اسے جہنم میں لے جاؤ۔‘‘ داعی کا تو وصف یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو جہنم سے بچانے اور جنت میں لے جانے کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اسی کے لیے محنت کرتا ہے، اسے تو ہرگز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنے وصف کے متضاد کام کرنا شروع کر دے۔ لہٰذا اس تباہ کن رویے سے ہر ممکن اجتناب ضروری ہے، تبھی دعوت کارگر ہو سکتی ہے اور تبھی لوگوں کو قریب لایا جا سکتا ہے اور انہیں راہِ حق پہ چلایا جا سکتا ہے۔ 13. ذکرِ الٰہی کا اہتمام: دِین کے داعی کو ہر دم اللہ تعالیٰ کے ذِکر میں مشغول رہنا چاہیے۔ اللہ کی یاد میں ہی
[1] سنن أبی داود: ۴۹۰۱۔ مسند أحمد: ۸۲۹۲۔ صحیح ابن حبان: ۵۷۱۲.