کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 109
میں نرم (یعنی سست) ہو تو اسے اسی حساب سے آزمایا جاتا ہے۔ بندے پر آزمائش و مصیبت آتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اسے ایسا کر کے چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر چل پھر رہا ہوتا ہے اور اس پر کوئی گناہ (باقی) نہیں رہتا۔‘‘ ہمیں ہر دم یہ ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دین کی دعوت کے لیے نکلتے تھے تو انہیں کس قدر سخت اذِیتیں دی جاتی تھیں۔ عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے بتلائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مشرکوں نے سب سے سخت رویہ کیا اپنایا تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: بَیْنَا رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یُصَلِّی بِفِنَائِ الکَعْبَۃِ، إِذْ أَقْبَلَ عُقْبَۃُ بْنُ أَبِی مُعَیْطٍ فَأَخَذَ بِمَنْکِبِ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَلَوٰی ثَوْبَہُ فِی عُنُقِہٖ فَخَنَقَہٗ بِہٖ خَنْقًا شَدِیدًا، فَأَقْبَلَ أَبُو بَکْرٍ فَأَخَذَ بِمَنْکِبِہٖ وَدَفَعَ عَنْ رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وَقَالَ: ﴿ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللّٰهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ ﴾ [غافر: ۲۸][1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے پاس نماز پڑھ رہے تھے کہ اسی دوران عقبہ بن ابی معیط آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شانہ مبارک پکڑ کر آپ کی گردن میں اپنا کپڑا لپیٹ دیا، پھر اس کپڑے سے بڑی سختی کے ساتھ آپ کا گلا گھونٹنے لگا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ انہوں نے عقبہ کا کندھا پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹایا اور کہا: کیا تم ایک آدمی کو اس وجہ سے قتل کر دینا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، جبکہ وہ تمہارے رب کے پاس سے اپنی سچائی کے لیے روشن دلائل بھی لے کر آیا ہے۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں (چشم تصور سے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ ایک نبی کا واقعہ بیان کر رہے تھے، کہ ان کی قوم نے انہیں اتنا مارا کہ
[1] صحیح البخاری: ۳۶۷۸.