کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 107
5. مصائب و تکالیف پر صبر: اگر میدانِ دعوت میں کوئی تکلیف اور مصیبت آتی ہے تو اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اگر آپ کسی شخص کو دین کی دعوت دیتے ہیں لیکن وہ آگے سے ناروا سلوک کرتا ہے، برا رویہ اپناتا ہے اور نازیبا زبان استعمال کرتا ہے تو اس کے اس عمل سے دِل شکستہ نہیں ہونا بلکہ یہ سوچنا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر تکالیف دی گئیں کہ آپ کے چہرۂ انور سے خون نکلنے لگا لیکن پھر بھی آپ ہمت نہ ہارتے اور نہ ہی ایسا کرنے والوں کو برا کہتے بلکہ ان کے لیے ہدایت کی دعا فرماتے۔ آپ کا رویہ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر دعوت کے میدان میں کوئی مصیبت اور مشقت برداشت کرنا پڑ جاتی ہے، موسم کی سختی، حالات کی تنگی، یا طبیعت کے موافق کسی چیز کے دستیاب نہ ہونے کی پریشانی، تو ایسی تمام باتوں پر فقط اللہ کی رضا کے لیے صبر کرنا ہے اور اللہ سے اجر کی اُمید رکھتے ہوئے اپنے مشن پر جمے رہنا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ﴾ [مریم : ۶۵] ’’پس تُو اس کی عبادت کر اور اس کی عبادت پر جم جا۔‘‘ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ شَیْئٍ یُصِیبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبِ وَلَا وَصَبٍ وَلَا حَزَنٍ حَتَّی الْہَمُّ یُہِمُّہٗ إِلَّا اللّٰہُ یُکَفِّرُ بِہٖ عَنْ سَیِّئَاتِہٖ))[1] ’’مسلمان کو جو بھی پریشانی، دُکھ تکلیف اور غم پہنچتا ہے، یہاں تک کہ جو رنج اسے پریشان کر دیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے بھی اس کی برائیوں کو دُور کر دیتا ہے۔‘‘ اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا مِنْ مُؤْمِنٍ یُشَاکُ شَوْکَۃً فِی الدُّنْیَا وَیَحْتَسِبُہَا إِلَّا قُصَّ بِہَا
[1] صحیح البخاری: ۵۶۴۱۔صحیح مسلم: ۲۵۷۳.