کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 103
اسی طرح فرمایا: ﴿ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴾ [البقرۃ : ۴۴] ’’کیا تم لوگوں کونیکی کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تمہیں سمجھ نہیں۔‘‘ اور دوسروں کو دِین کی دعوت دیتے رہنا، وعظ و نصیحت کرتے رہنا اور تبلیغ کرتے رہنا لیکن خود عمل کی زحمت نہ کرنا، یہ اس قدر بڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا کے متعلق سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((یُؤْتٰی بِالرَّجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقٰی فِی النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِہٖ، فَیَدُوْرُبِہَا کَمَا یَدُوْرُ الْحِمَارُ فِی الرَّحَائِ فَیَجْتَمِعُ إِلَیْہِ أَھْلُ النَّارِ، فَیَقُوْلُوْنَ: یَا فُلَانٌ مَا لَکَ؟ أَلَمْ تَکُنْ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہٰی عَنِ الْْمُنْکَرِ؟ فَیَقُوْلُ: بَلٰی کُنْتُ آمُرُ بَالْمَعْرُوْفِ وَلَا آتِیْہِ وَأَنْہٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ)) [1] ’’روزِ قیامت ایک شخص کولایاجائے گااورجہنم میں ڈال دیاجائے گا،آگ میں اس کی آنتیں باہر نکل آئیں گی اوروہ شخص اس طرح چکرلگانے لگے گاجیسے گدھاچکی کے گرد چکّر لگاتاہے۔دیگر جہنمی اس کے پاس جمع ہو جائیں گے اور پوچھیں گے : تمہاری حالت یہ کیوں ہوئی ؟کیا تم اچھائی کاحکم نہیں دیتے تھے؟ اوربرائی سے روکتے نہیں تھے؟ وہ جواب دے گا: کیوں نہیں، میں اچھے کاموں کاحکم دیتاتھالیکن خود نہیں کیاکرتاتھااورمیں بُرے کاموں سے روکتاتھا لیکن خود ان سے باز نہیں آتاتھا۔‘‘ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمل کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے، اس کے بارے میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا
[1] صحیح البخاری: ۳۲۶۷۔ صحیح مسلم:۷۴۰۸.