کتاب: دعوت دین کے بنیادی اصول - صفحہ 100
بیٹھا ہوتا ہوں۔ اور امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ 70سال سے مجھ سے تکبیراولیٰ نہیں چھوٹی۔ 2… جس کے پاس نفع مند علم ہو گا وہ دوسروں کا خیرخواہ اور ہمدرد ہو گا، اور جس میں یہ دونوں صفات نہیں ہوں گی وہ گویا علمِ نافع سے محروم ہے۔ جس شخص کے پاس دُنیا جہان کی ڈِگریاں موجود ہوں لیکن وہ قوم کو آپس میں لڑاتا ہو اور ان کے جھگڑے کرواتا ہو تو سمجھ لیں کہ وہ نفع مند علم سے محروم ہے۔ ایسا شخص داعی نہیں ہو سکتا۔ داعی تو معاشرے میں قیامِ امن کا پیغام دیتا ہے، وہ تو تصوراتی خلفشار اور فکری انحراف کا بھی خاتمہ کرتا ہے، چہ جائیکہ معاشرے کے امن کو تہہ و بالا کروا دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سالہا سال سے جاری جنگیں اور لڑائیاں ختم کروانے میں کردار ادا کیا تھا، نئی جنگیں شروع نہیں کروائی تھیں۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اُسوہ حسنہ مانتے ہوئے اپنے دِل سے تعصب اور نفرت کا خاتمہ کر دینا چاہیے اور اس کی جگہ لوگوں کے لیے خیرخواہی اور ہمدردی بھر لینی چاہیے۔ 3… جس کے پاس نفع مند ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا خوف آ جاتا ہے۔ ایسا خوف جیسا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میں تھا، جو بائیس لاکھ مربع میل کے حاکم ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس قدر ڈرتے تھے کہ رونے لگ جاتے اور فرماتے: یَا لَیْتَنِی ہَذِہِ التِّبْنَۃُ، لَیْتَنِی لَمْ أَکُنْ شَیْئًا، لَیْتَ أُمِّی لَمْ تَلِدْنِی، لَیْتَنِی کُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا۔[1] ’’کاش! میں یہ تنکا ہوتا، کاش! میں کچھ بھی نہ ہونا، کاش! میری ماں مجھے جنم ہی نہ دیتی، کاش! میں بھولی بسری کوئی چیز ہوتا۔‘‘ اور ایک مرتبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک درخت کے پاس سے گزریں تو فرمانے لگیں: یَالَیتَنِی کُنْتُ وَرَقَۃً مِنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ۔[2] ’’اے کاش! میں اس درخت کا پتہ ہوتی (اور کوئی جانور مجھے کھا لیتا اور مجھے حساب نہ دینا پڑتا)۔‘‘
[1] شرح السنۃ للبغوی: ۱۴-۳۷۳. [2] الزھد لأحمد بن حنبل: ۹۱۸.