کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 95
مولانا حکیم عصمت اﷲ صاحب مؤی رحمانی بھی موجود تھے۔ چونکہ دارالحدیث ہند کا ایک مرکزی ادارہ تھا، اس لیے اس کا اعلان ہوتے ہی طلبا کی ایک کثیر مقدار وہاں پہنچ گئی اور موجودہ اساتذہ ان طلبا کے لیے ناکافی ہوگئے، اس وجہ سے مدرسین کی تلاش شروع ہوگئی، چونکہ مولانا عصمت اﷲ صاحب اور ان کے ہم درس اونچی جماعت میں تھے، اس لیے مولانا سیالکوٹی نے ان سے اسباق شروع کرا دیے اور خالی اوقات میں دوسری جماعتوں کی بعض کتابیں بھی پڑھانے لگے، جس کے باعث مولانا دن بھر تعلیم میں مشغول رہتے تھے۔
’’چند مہینوں کے بعد آپ کی طبیعت اچاٹ ہوگئی اور ہمیشہ کے لیے دہلی سے اپنے وطن چلے آئے۔ اپنے شاگردوں کو خاص طور پر مولانا عصمت اﷲ اور ان کے ساتھیوں کو حکم دے گئے کہ یہیں اپنی تعلیم مکمل کرنا۔ ان حضرات نے مولانا کے حکم کی تعمیل کی اور اپنی تعلیم دارالحدیث رحمانیہ ہی میں مکمل کی، اس حیثیت سے آپ دارالحدیث رحمانیہ کے السابقون الاولون میں سے ہیں ۔ آپ کا سنہ فراغت ۱۳۴۱ھ ہے۔‘‘[1]
7۔ والد محترم مولانا محمد صاحب اعظمی ہمارے دادا مولانا عبدالعلی رحمہ اللہ پر لکھے ہوئے اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں :
’’..... پھر وطن واپس آکر مدرسہ فیض عام میں مولانا عبدالرحمن سابق مدرس فیض عام، حکیم مولانا عصمت اﷲ رحمانی اور حکیم مولانا محمد سلیمان رحمانی وغیرہ کے ساتھ شریکِ درس ہوئے۔ یہاں سے متوسطات پڑھ کر ان ساتھیوں کا قافلہ ۱۳۳۷ھ میں سیالکوٹ (پنجاب) پہنچا اور حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی
[1] مجلہ ’’آثارِ جدید‘‘ مئو (ستمبر ۲۰۰۴ء، ص: ۲۳۔ ۲۴)