کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 93
ملا اور ہم لوگ وہاں سے وطن واپس آگئے اور مدرسہ اسلامیہ (فیض عام) شعبان تک حضرت استاذی مولانا احمد صاحب رحمہ اللہ سے پڑھتے رہے۔ اسی عرصے میں ہم نے مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو بذریعہ خط تمام حالات سے مطلع کیا اور یہ بھی لکھا کہ ہم لوگ بغرضِ تعلیم آں جناب کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتے ہیں ۔ ہمارے خط کا جواب مولانا موصوف نے فوراً دیا کہ تم لوگ فوراً آجاؤ۔ ہم لوگوں نے جواب دیا کہ رمضان المبارک کے بعد شوال المکرم میں ہم لوگ ان شاء اﷲ حاضر ہوں گے۔ رمضان المبارک کے بعد شوال ۱۳۳۷ھ میں ہم لوگ سیالکوٹ پہنچ گئے۔ ہم لوگ عشا کے وقت مدرسہ دارالحدیث پہنچے، وہاں مولانا محمد اسماعیل صاحب گجرانوالہ پہلے ہی سے حضرت مولانا سیالکوٹی کے ہاں زیرِ تعلیم تھے۔ ’’جب مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ کو ہماری آمد کی اطلاع ملی تو فوراً مدرسے میں تشریف لائے اور ہم لوگوں کو بہت ہی محبت اور پیار کے ساتھ خوش آمدید کہا اور دوسرے روز ہم لوگوں کے اسباق کا انتظام فرمایا اور ہم لوگ دو سال تک انتہائی آزادی کے ساتھ حضرت مولانا اور ان کے ماتحت مدرسین سے اپنے دامن کو گوہرِ مراد سے پر کرتے اور علمی پیاس بجھاتے رہے، ان دو سالوں میں ہم نے حضرت العلامۃ سیالکوٹی رحمہ اللہ سے حدیث میں ترمذی، نسائی، ابو داود؛ تفسیر میں بیضاوی، جلالین؛ مناظرہ میں رشیدیہ؛ ادب میں سبعہ معلقہ، مقامات حریری، دیوان حماسہ، متنبی اور اصولِ تفسیرمیں الفوزالکبیر؛ اصولِ فقہ میں توضیح تلویح؛ ہندسہ میں اقلیدس اور دیگر فنون کی کتابیں پڑھیں ۔۔۔۔‘‘[1]
[1] ماہنامہ ’’آثار‘‘ مئو، مئی ۱۹۸۳؁ء (ص: ۴۰۔ ۴۱)