کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 92
5۔ یاد گار مجلہ اہلِ حدیث کے مرتب نے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی تحریک و ترغیب پر دارالحدیث رحمانیہ قائم کرنے کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے: ’’مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (متوفی ۱۳۷۵ھ) بھی ان دنوں ’’دار الحدیث‘‘ نام کا ایک مدرسہ چلا رہے تھے۔ انھوں نے جب یہ بشارت سنی تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا اور اپنے یہاں کا مدرسہ ’’دار الحدیث‘‘ اس کا نام مع کتب خانہ، اساتذہ و طلبا دہلی کی اس نئی عمارت میں منتقل کر دیا، چونکہ دونوں بھائیوں کے اسما میں آخری لفظ ’’رحمان‘‘ ہے، اسی مناسبت سے اس ’’دار الحدیث‘‘ کا نام ’’دار الحدیث رحمانیہ‘‘ پڑا۔‘‘[1] 6۔ مدرسہ دارالحدیث سیالکوٹ کے دہلی منتقل ہو کر دار الحدیث رحمانیہ میں ضم ہوجانے کا واقعہ مولانا عصمت اﷲ رحمانی مؤی اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تفصیل سے اس طرح بیان کرتے ہیں : ’’پھر مولوی ماجد علی جون پوری کی شہرت سے متاثر ہو کر منطق کے شوق میں ریاست میڈھو ضلع علی گڑھ گیا اور مدرسہ یوسفیہ میں داخلہ لیا۔ مذکورہ مدرسے میں طلبا کی زبانی معلوم ہوا کہ مولوی ماجد علی سے کہیں زیادہ قابل ان کے ایک شاگرد مولانا محمد عرفان صاحب ہزاروی ہیں ، اس لیے بجائے مولوی ماجد علی کے محمد عرفان صاحب کے پاس میں نے حمداﷲ اور میبذی شروع کی۔ در حقیقت مولانا موصوف منطق اور فلسفے میں بہت ہی قابل تھے اور اپنے استاد مولوی ماجد علی سے بہت آگے تھے۔ ’’مذکورہ مدرسے میں چند مہینے گزارنے کے بعد کچھ مسلکی تعصب رکھنے والے طلبا کی جھوٹی شکایت پر بلا تحقیق ہمیں مدرسے سے نکل جانے کا حکم
[1] یادگار مجلہ ’’اہلِ حدیث‘‘ (ص: ۳۰۰)