کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 91
کے رئیس کبیر جناب شیخ عبدالرحمن کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ شہرِ دہلی میں ایک ایسی مرکزی درس گاہ کا قیام عمل میں لایا جائے، جو اس خلا کو پر کر سکے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس تجویز کے محرک مولانا ابراہیم صاحب سیالکوٹی تھے، اولیت جس کو بھی حاصل ہو، یہ حقیقت ہے کہ اول روز ہی سے یہ دونوں حضرات اس تحریک کے حامی، موید اور فعال رکن رہے اور اپنے تعاون و اشتراک سے اس تحریک کو تقویت پہنچاتے رہے۔‘‘[1]
4۔ جناب حکیم عبدالکریم قریشی فرماتے ہیں :
’’ان نیک دل بھائیوں (شیخ عبدالرحمن و شیخ عطاء الرحمن) نے تجارت علاحدہ کرنے سے قبل بہ مشورہ حضرت مولانا میر سیالکوٹی ایک دینی مدرسے کی تعمیر کا پختہ ارادہ کر کے نقد میں سے دو لاکھ روپے بطور مصارفِ تعمیر علاحدہ کر لیے۔‘‘
اس کے بعد مدرسے کی افتتاحی تقریب میں مولانا ثناء اﷲ امرتسری کے خطاب کا یہ حصہ بھی موصوف نے نقل کیا ہے:
’’اس کے بعد دہلی والوں سے خطاب فرمایا کہ اس عظیم الشان تعلیم گاہ کے بنانے اور سنوارنے میں اگرچہ آپ نے ہمت و قربانی کا ثبوت دیا ہے، لیکن ہم پنجابیوں نے بھی ایک بہت بڑے ایثار سے کام لیا ہے کہ مولانا سیالکوٹی کو جو اہلِ حدیثانِ پنجاب کی علمی دنیا میں بہ منزلہ روح مانے جاتے ہیں ، اس مدرسے کی خدمت کے لیے پنجاب سے دہلی کو روانہ کر دیا ہے.....‘‘[2]
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (اکتوبر ۱۹۸۴ء، ص: ۲۰)
[2] مجلہ ’’اہلِ حدیث‘‘ ہریانہ (۲۱؍ مئی ۱۹۷۹ء، ص: ۷۔ ۹)