کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 90
رکھی۔۔۔۔‘‘[1]
اسی انٹرویو میں رحمانیہ میں تشریف لانے والے علما سے متعلق ایک سوال کے جواب میں آپ فرماتے ہیں :
’’.....دیگر (رحمانیہ میں تشریف لانے والے) علما میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی بھی تھے، بلکہ یہی تو ہیں ، جن کی ترغیب پر شیخ عبدالرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے اس مدرسے کی بنیاد رکھی......‘‘[2]
2۔ مولانا محمد ادریس آزاد رحمانی لکھتے ہیں :
’’ بعض لوگوں کے بیان کے مطابق دارالحدیث رحمانیہ دہلی کا قیام مولانا رحیم آبادی مرحوم کے ایما سے عمل میں آیا تھا، لیکن اس مرکزِ علم وفن کی بنیاد آپ کی حیات مستعار میں نہ پڑ سکی، اس لیے کہ بعض وقائع نگاروں کے بیان کی رو سے آپ کی وفات ۱۳۳۶ھ میں ہوئی اور رحمانیہ کا قیام ۱۳۳۹ھ میں عمل میں آیا۔ بہر کیف اس بیان کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہی کی راہنمائی اس کے قیام کی اصل محرک ہوئی اور آپ ہی کے ارشاد کے مطابق الحاج شیخ عبدالرحمن مرحوم نے اسے قائم کیا۔۔۔۔‘‘[3]
3۔ مدرسہ رحمانیہ پر لکھے ہوئے مضمون میں جناب فاروق اعظمی صاحب کا یہ بیان سابقہ صفحات میں گزر چکا ہے:
’’.......لہٰذا حافظ مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی (مرحوم) نے دہلی
[1] ماہنامہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ برمنگھم (نومبر، دسمبر ۱۹۹۸ء، ص: ۱۴)
[2] ایضاً: (جنوری ۱۹۹۹ء، ص: ۱۹)
[3] مقدمہ اہلِ حدیث اور سیاست (ص: ۱۱)