کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 87
ایمانی جذبہ موجزن ہو، وہ ان حالات و کوائف سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، چنانچہ حاجی صاحب موصوف اس ذہنی خاکے کو منصہ شہود پر لانے کے لیے ہمہ تن مصروف ہوگئے، کسی نہ کسی طرح زمین حاصل کی اور اسی وقت تعمیری سلسلہ شروع ہوگیا، چوں کہ حاجی صاحب موصوف الصدر اور اُن کے محترم برادر شیخ عطاء الرحمن صاحب تمام کاروبار میں شریک تھے، اس لیے ان دونوں کے مشترکہ سرمائے سے دار الحدیث کی خوشنما عمارت ۱۳۳۹ھ مطابق ۱۹۲۱ء میں تقریبا ایک لاکھ روپے سے بن کر تیار ہوگئی، اس تعمیری سلسلے میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی دونوں حضرات کو اپنے بہترین مشوروں اور آرا سے مستفیض فرماتے رہے تھے۔‘‘[1]
اٹھائیسویں اہلِ حدیث کانفرنس (پاکوڑ) کے انعقاد کے موقع پر شائع ہونے والے یادگار مجلے میں بھی دار الحدیث رحمانیہ کے قیام کا پسِ منظر کچھ اسی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مجلہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
’’برصغیر ہند و پاک میں اس مدرسے کے قیام سے پہلے بھی اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے حامل بے شمار مدارس و مکاتب قائم تھے اور اسلام کی نشر و اشاعت، کتاب و سنت کی ترویج و ترقی، شرک و بدعات کی تردید، تقلید و جمود کی تغلیط اور باطل افکار و خیالات کے قلع قمع کرنے میں اپنی بساط کے مطابق مصروفِ عمل تھے، لیکن پھر بھی ایک ایسے مثالی دار الحدیث کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی، جو تحریکِ اہلِ حدیث اور احیائے کتاب و سنت کا حقیقی مرکز اور مثالی گہوارہ ہو، جہاں سے ایسے بے مثال علما، عدیم النظیر مناظر، جلیل القدر محدث اور قادر الکلام مقرر و خطیب
[1] ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور (۱۲؍ اگست ۱۹۹۴ء، ص: ۲۰۔ ۲۱)