کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 82
آبادی کے پاس پہنچا، کیوں کہ وہ جماعتِ مجاہدین کے رکن رکین تھے اور صوبہ بہار کا جماعتِ مجاہدین سے بیشتر مالی تعاون ان کی وجہ سے ہوتا تھا۔ برصغیر پاک وہند میں حضرت مولانا محمد ابراہیم آروی پہلے ہندوستانی عالم ہیں ، جنھوں نے درسِ نظامی میں اساسی اور انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ مذاکرہ آرہ کے نام سے انھوں نے اس کا آغاز فرمایا۔ مولانا رحیم آبادی نے مولانا آروی کی وفات کے بعد ان کی روایات کو درخشندہ رکھا۔ ’’چنانچہ حضرت صوفی صاحب نے حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی سے درد بھرے الفاظ میں شرح و بسط سے اپنی معروضات پیش کیں اور ان سے درخواست کی کہ جلد از جلد اہلِ حدیث کے دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا جائے، ورنہ اہلِ حدیث کی نسلِ نو حنفی ہو جائے گی، چنانچہ حضرت صوفی صاحب کی تحریک سے حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی نے ریاست دربھنگہ کے ڈاکٹر سید محمد فرید مرحوم کو ریاست دربھنگہ میں دینی مدرسہ قائم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت صوفی صاحب کی تحریک اور حضرت مولانا رحیم آبادی کی تائید سے دار العلوم احمدیہ سلفیہ لہریا سرائے، دربھنگہ کا قیام عمل میں آیا، جو آج بھی بحمد اﷲ مشرقی ہند کا ایک عظیم دینی ادارہ ہے۔ ’’ڈاکٹر سید محمد فرید مرحوم کے صاحب زادے ڈاکٹر سید عبد الحفیظ اس کے مہتمم اعلی ہیں ۔[1] حضرت مولانا عبدالجبار محدث کھنڈیلوی مرحوم،
[1] ڈاکٹر سید عبدالحفیظ صاحب ۱۹۹۹ء میں وفات پاگئے، اب ادارہ کی باگ ڈور ان کی اولاد کے ہاتھ میں ہے۔