کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 81
جماعتِ مجاہدین کا پیغام رساں ہوں ، علامہ انور شاہ صاحب نے طلبا کو سختی سے ڈانٹا اور ان کو مجھ سے دست درازی سے منع فرمایا اور طلبا کو حکم دیا کہ وہ مجھے مہمان خانے میں لے جائیں ۔ ’’نیز علامہ صاحب نے فرمایا کہ سبق سے فراغت کے بعد میں بھی وہاں آجاؤں گا۔ وہ دونوں لڑکے، جن کے سپرد مجھے کیا گیا تھا، کہنے لگے: حضرت تم بڑے خوش نصیب ہو، اس جسارت سے بال بال بچ گئے ہو، ورنہ تم ان پٹھان طالب علموں کی خون آشامی کی نذر ہوجاتے۔ انھوں نے کہا: ہم اہلِ حدیث ہیں ، ستّر اسّی اہلِ حدیث طالب علم اور بھی یہاں پڑھتے ہیں ، ہم اپنا مسلک چھپ چھپاکر اور اپنے کو حنفی ظاہر کرکے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ صوفی صاحب نے ان سے دریافت کیا کہ کیا تم فراغت تک اہل حدیث ہی رہتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہم میں غالب اکثریت تو حنفی ہوجاتی ہے، البتہ چند وہ طالب جن کا گھریلو ماحول خالص دینی علمی اور مسلکی ہو، وہ ثابت قدم رہتے ہیں ، ورنہ ’’ہر کہ درکان نمک رفت نمک شد‘‘ کا سا معاملہ ہو جاتا ہے۔ ’’صوفی صاحب نے فرمایا تم اہلِ حدیث مدارس میں کیوں داخل نہیں ہوجاتے؟ انھوں نے جواباً کہا: پہلے تو اہلِ حدیث مدارس ہی کہاں ہیں ؟ جہاں ہم داخل ہوں ؟ دو چار جو ہیں ، وہ بھی چند طلبا سے زائد داخل نہیں کر سکتے۔ اگر ہمارا بندوبست ہو جائے تو ہم تمام اہلِ حدیث طلبا دار العلوم دیوبند سے نکل سکتے ہیں ۔‘‘ مولانا محمد اسلم فیروز پوری آگے لکھتے ہیں : ’’حضرت صوفی صاحب نے فرمایا: میں اُسی وقت مولانا عبد العزیز رحیم