کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 72
’’طلبا کو مدرسے کے وقت میں مدرسے ہی میں حاضر رہنا چاہیے۔ نماز کے لیے جب آپ مسجد میں جائیں تو خشوع وخضوع، ادب و وقار سے جائیں ۔ مسجد میں آدابِ مسجد کے خلاف کوئی بات نہ ہونے پائے۔ اسباق دل لگا کر پڑھیں ۔ اخلاقی باتوں کا پورا لحاظ رکھیں ۔ جو پڑھیں اس کا مجسم عملی نمونہ بن جائیں ۔۔۔۔‘‘[1] اپنے پیش رو مہتمم کی طرح شیخ عبد الوہاب بھی وقتاً فوقتاً طلبا و اساتذہ کو اپنی کوٹھی پر بلاتے اور انھیں پُرتکلف دعوت کھلاتے، چنانچہ مولانا محمد یوسف صاحب شمس محمدی فیض آبادی شیخ عطاء الرحمن کی وفات کے بعد برائے تعزیت دہلی آئے اور مدرسے گئے، بعد میں ’’اخبارِ محمدی‘‘ میں ان کا ایک تاثر طبع ہوا، جو اس طرح ہے: ’’۱۰؍ جون ۱۹۳۸ء کا جمعہ اس عاجز نے اپنے محترم دوست حضرت میاں صاحب ۔أدخلہ اللّٰہ في الجنان و أعلی مقامہ في دار الخلد۔ کی مسجد مدرسے میں پڑھایا۔ مرحوم کی خواہش رہا کرتی تھی کہ میرے طلبا کو وعظ و مناظرے کے متعلق اصولی اشارے کر دیا کرو۔ اپنے اس عالی مرتبت مکرم کی اس خواہش کو ان کی وفات کے بعد بھی میں نے پورا کیا۔ خطبہ میں طلبا کو اصولِ وعظ و طریقِ خطابت سکھاتے ہوئے تفسیری نکات بھی بیان کیے۔ آج مرحوم کے دولت خانہ پر طلبا و علما کی پر اکرام دعوت تھی، جس میں حضرت مرحوم کے سب صاحب زادے حق میزبانی ادا کرتے ہوئے اخلاق و کرم کا نمونہ پیش کررہے تھے۔‘‘ (احقر العباد محمد یوسف شمس محمدی فیض آبادی، ۱۲؍ جون ۱۹۳۸ء) [2]
[1] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (۱۵؍ جولائی ۱۹۳۹ء، ص: ۲) [2] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (یکم جولائی ۱۹۳۸ء، ص: ۶۔ ۷ )