کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 71
نے کوئی خلافِ دین و دیانت حرکت کی توس میں سختی سے باز پرس کروں گا اور قصور کے مطابق سزا دینے میں ہرگز غفلت نہ کروں گا۔ میں ٹھوس تعلیم مع تعمیل پسند کرتا ہوں اور اس کا خلاف میرے لیے حوصلہ شکن ہے۔ میں اپنے ہاں کے مدرسین سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ جہاں ایک طرف تعلیم میں انہماک فرمائیں ، وہاں دوسری جانب طلبا کی اخلاقی نگرانی سے بھی غفلت نہ برتیں ۔‘‘ اس جلسے میں مولانا ثناء اﷲ صاحب (امرتسری) بھی موجود تھے اور آپ نے بھی خطاب کیا تھا۔[1] اگست ۱۹۳۹ء میں مدرسے کے طلبا کی انجمن ’’جمعیۃ الخطابۃ‘‘ کا سالانہ اختتامی جلسہ مولانا محمد صاحب جوناگڑھی کی زیر صدارت منعقد ہوا، اس جلسے میں طلبا نے اردو عربی تقریروں کے علاوہ اپنی لکھی ہوئی کچھ نظمیں بھی پیش کیں ، جن میں شیخ عبد الوہاب صاحب (مہتمم مدرسہ) کی تعریف کی گئی تھی۔ پروگرام کے اخیر میں شیخ عبد الوہاب صاحب نے تقریر کی اور پروگرام سے متعلق خوشی کا اظہار فرمایا، ساتھ میں یہ بھی فرمایا: ’’نظم میں جو میری تعریف کی گئی ہے، میں اس سے خوش نہیں ۔ میں یہ کام صرف رضا مندیِ رب کی طلب میں کر رہا ہوں ۔ خدا قبول فرمائے اور مجھے مزید نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے کہ میں اس کی ہر راہ میں اس کی دی ہوئی دولت صَرف کروں ۔ یہ خداداد چیز ہے، فی سبیل اﷲ کام آئے، اسی میں میری خوشی ہے۔‘‘ پھر فرمایا:
[1] پندرہ روزہ ’’اخبار محمدی‘‘ دہلی (۱۵؍ دسمبر ۱۹۳۸ء، ص: ۴)