کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 70
تقسیمِ ہند کے بعد ہونے والے خون ریز فرقہ وارانہ فسادات کے وقت شیخ عبد الوہاب اپنے پورے خاندان کے ساتھ کراچی ہجرت کرگئے اور ادارے کی عمارت حکومتی تحویل میں آگئی، جس میں بعد میں ایک اسکول قائم ہوا اور آج بھی اس عمارت میں اسکول چل رہا ہے۔ شیخ عبد الوہاب بن عطاء الرحمن کے اخلاق و عادات اور انتظامی صلاحیت سے مزید واقفیت حاصل کرنے کے لیے ذیل کے واقعات اور تفصیلات ملاحظہ ہوں : مدرسے کے انیسویں تعلیمی سال (دسمبر ۱۹۳۹ء؁ ) کے افتتاح کے موقع پر شیخ عبدالوہاب (مہتمم رحمانیہ) نے خطبہ افتتاحیہ پیش کیا، جس میں حمد و صلات کے بعد انیسویں تعلیمی سال کے افتتاح کی خوشی کے موقع پر مرحومین (دادا اور والد) کو یاد کیا، پھر اساتذہ کا شکریہ ادا کیا، جنھوں نے مدرسے کا نظام سنبھالے رکھا، پھر طلبا کی سہولیات اور اپنی داد و دہش کو جاری رکھنے کا وعدہ فرمایا، اس موقع پر طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ’’سنیے! میرے لیے سخت رنج دہ (بات) ہوگی کہ آپ شریعت کے ذرا سا بھی خلاف کام کریں ، احکامِ شرع کی تعمیل میں سستی کریں ، مدرسے کے قوانین کا احترام نہ کریں ، اساتذہ کی بہ دل عزت نہ کریں ، نمازوں میں بلا وجہ شرعی غیر حاضری کریں ، آپس میں کوئی ناچاقی یا اختلاف کریں ۔ میں چاہتا ہوں کہ بھائیوں کی طرح متحد ومتفق ہو کر رہیں اور طلبِ علمِ دین کے سوا کسی چیز کی طرف التفات بھی نہ کریں ۔ آپ کے بڑوں نے جس اعتماد پر آپ کو اس مدرسے میں بھیجا ہے، وہ مجھے مجبور کر رہا ہے کہ آپ کی تعلیمی حالت کے ساتھ ہی ساتھ میں آپ کی اخلاقی حالت کی بھی نگرانی رکھوں ، اس لیے میں کھلے الفاظ میں آپ کو سناتا ہوں کہ اگر کسی