کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 69
’’ہمارے زمانے میں شیخ عبد الوہاب بن شیخ عطاء الرحمن دہلوی مہتمم مدرسہ تھے۔ دہلی کے سرمایہ داروں میں ان کا شمار دوسرے نمبر پر ہوتا تھا۔ صدر بازار دہلی میں ان کی عالی شان دکان تھی، ان کے والد اس مدرسے کے بانی اور مہتمم اول تھے اور زیادہ تر مدرسے کے انتظام اور نگرانی میں اپنے کو وقف کیے رہتے تھے، ان کے بعد ان کے صاحب زادے شیخ عبد الوہاب نے اہتمام کی ذمے داری سنبھالی۔ وہ ایک روز ناغے سے اپنی کار میں آتے اور گیٹ ہی پر مدرسے کے منشی سے حال دریافت کرکے واپس چلے جایا کرتے۔ اگر کوئی خاص مسئلہ ہوتا تو اندر تشریف لے جاتے اور ناظمِ تعلیمات مولانا نذیر احمد سے تبادلۂ خیال فرماتے۔ مجھے اپنی ایک سالہ مدتِ تعلیم میں ان کو دو بار قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ پہلی دفعہ عیدالاضحی کے ایک روز قبل تمام طلبا کو عیدی تقسیم کرتے وقت، دوسری مرتبہ سالانہ امتحان کے نتائج اور تقسیمِ انعامات کی مجلس میں ۔‘‘[1] مولانا نذیر احمد رحمانی لکھتے ہیں : ’’........اﷲ اﷲ وہی عبد الوہاب، جو دن بھر دکان پر بیٹھ کر سوائے اپنے کاروبار کی دھن میں لگے رہنے کے جانتا بھی نہ تھا کہ مدرسہ کہاں ہے اور طلبا کدھر ہیں ؟ اب دن میں دو، دو مرتبہ آکر مدرسے کی ڈیوڑھی کی زیارت کرتا ہے، پردیسیوں کا حال پوچھتا ہے، ان کی ہر طرح کی آسایش کے لیے بے چین رہتا ہے۔ وہی عبد الوہاب جس غریب کو شاید پتا بھی نہ رہا ہو کہ مدرسے میں مدرس کتنے ہیں اور کون کون ہیں ؟ اب اس کا یہ حال ہے کہ ان کی ہم نشینی اپنے لیے باعثِ عزت سمجھتا ہے.......‘‘[2]
[1] ماہنامہ ’’محدث‘‘ بنارس (ستمبر، اکتوبر ۲۰۰۸ء، ص: ۶۴) [2] رسالہ ’’محدث‘‘ دہلی (اگست ۱۹۳۸ء، ص: ۴)