کتاب: تاریخ وتعارف مدرسہ دار الحدیث رحمانیہ دہلی - صفحہ 62
غریب غربا اور حاجت مندوں کو رات کے اندھیرے میں تقسیم کر دیتے۔ بارہا ایسا بھی ہوتا کہ گلی کوچے کے بدنام، اچکے اور جرائم پیشہ (جو رات کی تاریکی میں راہ گیروں کو اپنا شکار خاص سمجھ کر اچک لیا کرتے تھے) سے بھی آمنا سامنا ہو جاتا، مگر کبھی وہ ان سے تعرض نہ کرتے تھے، بس اتنا کہتے: ’’اچھا میاں جی ہیں کیا؟‘‘ اور پھر سر جھکائے ندامت اور شرمندگی سے دوسری طرف نکل جاتے۔۔۔ صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے تک مدرسے کے پھاٹک کے پاس چارپائی ڈال کر پڑے رہتے اور ہر طرح کے نظم و نسق اور درس وتدریس کی نگرانی کیا کرتے۔ کیا مجال تھی کہ کوئی لیٹ آتا یا اساتذہ گھنٹی کے ساتھ اپنے درس میں مشغول نہ ہوتے یا کوئی لڑکا بلا وجہ ادھر ادھر گھومتا نظر آتا۔ نگرانی کسی ڈکٹیٹر یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی نگرانی نہ تھی، بلکہ ایسے درد مند دل کا کرشمہ تھا، جس کے چشم و ابرو کے اشارے پر مدرسے کا ذرہ ذرہ حرکت میں آجاتا تھا۔ یہ موصوف کے اخلاص و ایثار اور للہیت کا ثمرہ تھا کہ ہر شخص سراپا علم و عمل بنا ہوا تھا۔
’’ادارے میں طلبا ملک کے گوشے گوشے سے آتے تھے، ان میں کم سن بھی ہوتے تھے اور باشعور بھی، لیکن وہ یہاں آکر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، دوست احباب اور وطن عزیز کی محبت رکھتے تھے اور خود مہتمم صاحب ان سے اس طرح خوش دلی اور نرمی سے پیش آتے تھے کہ لڑکوں کو ان سے ایک باپ کی شفقت، جاں نثار بھائی کی محبت اور عزیز دوست کی رفاقت کا احساس بیک وقت محسوس ہوتا تھا۔ طلبہ و اساتذہ کے خور و نوش اور رہایش کا بہترین انتظام فرماتے تھے، غریب و یتیم اور مسکین طلبا کے